مرزاقادیانی کذاب تھے۔ اب قادیانیوں کا یہ کہنا اور یہ جواب دینا کہ چونکہ انہوں نے خطوط لکھے اور مرزاقادیانی سے معافی مانگی۔ لہٰذا نکاح نہ ہوا۔ یہ ایسا بے سروپا جواب ہے کہ عاقل انسان اسے تسلیم کرنے کو تیار نہیں۔ کیونکہ خدا نے مرزاقادیانی سے وعدہ کیا کہ وہ تیرے نکاح میں آئے گی اور پھر یہ بھی الہام کیا کہ میں نے اس کا نکاح اور عقد تیرے ساتھ باندھ دیا تو اب کیا خدا نے مزاقاً اور بطور استہزاء کے الہام کیا تھا کہ اوّل تو فرمایا کہ اس کا عقد تیرے ساتھ میں نے باندھ دیا اور پھر فسخ کردیا۔ کیا اس کو معلوم نہ تھا کہ لوگ مانع ہوںگے اور پھر جب باربار بتکرار ہزار ہزار تاکیدوں کے ساتھ یہ الہام خدا نے مرزاقادیانی کو کیا کہ نفس عقد تقدیر مبرم ہے اور میں ہر ایک روک درمیان میں سے اٹھا دوںگا۔ تو پھر کیوں ہر ایک روک کو نہ اٹھایا اور تقدیر مبرم کے وقوع سے کون چیز مانع آئی اور پھر یہ تو نکاح کی پیش گوئی ہے جو محض رحمت اور انعام ہے۔ تو کیا وعدہ رحمت میں خدا نے جھوٹ بولا (معاذ اﷲ) یہاں کوئی وعید کے متعلق تو پیش گوئی نہیں جو قادیانی حضرات کو حیلہ سازی کا موقع مل سکے۔ یہ تو رحمت کی پیش گوئی ہے۔ پھر کیوں نہ پوری ہوئی۔ غرض ہر ایک قادیانی حیلہ بیکار ہے اور مرزاقادیانی ضرور مفتری تھے۔ خیر ہرچہ باداباد۔ اب میں یہاں پر ناظرین کے مزید اطمینان کے لئے مرزاقادیانی کے چند ایسے الہام تحریر کرتا ہوں جو سفید جھوٹ ہیں اور ان پر ذریات مرزائیہ کے دستخط ثبت ہیں۔ افسوس ہے کہ باوجود اس قدر صریح کذبات ودروغ گوئی کے مرزاقادیانی کو اپنے الہاموں پر ناز وافتخار ہے اور جوش میں آکر انبیاء علیہم السلام کی ہمسری کا دعویٰ کر کے ؎
آنچہ من بشنوم زوحی خدا
بخدا پاک دانمش زخطا
ہم چو قرآں منزہ اش دانم
از خطاہا ہمیں ست ایمانم
(درثمین ص۷۷، نزول المسیح ص۹۹، خزائن ج۱۸ ص۴۷۷)
کا نقارہ بجاتا ہے اور یہ جھوٹا منہ لے کر ؎
انبیاء گرچہ بودہ اند بسے
من بعرفاں نہ کمترم زکسے