نے جو میرٹھ کے ایک زبردست علامۂ زمان ہیں۔ نظم کیا ہے۔ چنانچہ فرماتے ہیں ؎
گفت مرزا مر ثناء اﷲ را
پیش میرد ہر کہ ملعون خداست
پس رواں شد خود بملک نسیتی
بود کذابے ولیکن گفت راست
(الکذوب قد یصدق)
قادیانی حضرات اس کا جواب گوناگوں اور انواع واقسام طرق سے دیتے ہیں۔ زبردست اور مضبوط جواب یہ دیتے ہیں کہ چونکہ ثناء اﷲ نے اس کو قبول نہیں کیا۔ اس واسطے سزا ملتوی ہوگئی۔ لیکن یہ ایسا جواب ہے کہ مرزاقادیانی خود اس سے ناراض ہیں۔ یہاں تو صریحاً معلوم ہوا کہ یہ وحی ہے اور خدائی کلام ہے۔ یہ اٹل ہے اور ضرور ہوکر رہے گا۔ ثناء اﷲ اس کو قبول کرے یا نہ کرے۔ دوم یہ کہ اگر فرض بھی کر لیں کہ یہ دعاء ہے تو مرزاقادیانی کو یہ الہام ہے کہ: ’’اجیب کل دعائک‘‘ (حقیقت الوحی ص۲۴۳، خزائن ج۲۲ ص۲۵۴) کہ تیری ہر دعاء قبول کروں گا۔ تو پس یہ الہام کاذب ہوا جاتا ہے اور اس سے خدا پر دھبہ آتا ہے۔ تعالیٰ اﷲ عن ذلک! اور اگر یہ صرف تمنا ہی تمنا ہے تو پھر بھی چھٹکارا نہیں۔ کیونکہ مرزاقادیانی کو وحی ہوئی ہے کہ: ’’انما امرک اذا اردت شیئا ان تقول لہ کن فیکون‘‘ (حقیقت الوحی ص۱۰۵، خزائن ج۲۲ ص۱۰۸) تو اس کے خلاف لازم آتا ہے۔ غرض کلامی ہذا کاذب کی طرح اشکال جذراصم ہے کہ اگر صادق ہے تو کذب کو مستلزم ہے اور جو کاذب ہے تو مستلزم صدق ہے۔ کسی طرف اس اشکال سے راہ فرار نہیں اور مفتری ہونا بیّن طور سے ثابت ہوا۔
مہر مرزا بر افترائے مرزا
۲… ’’اس امر سے اکثر لوگ واقف ہوں گے کہ ڈاکٹر عبدالحکیم خان صاحب جو تخمیناً بیس برس تک میرے مریدوں میں داخل رہے۔ چند دنوں سے مجھ سے برگشتہ ہوکر سخت مخالف ہوگئے ہیں اور اپنے رسالہ المسیح الدجال میں میرا نام کذاب، مکار، شیطان، دجال، شریر، حرام خور رکھا ہے اور مجھے خائن شکم پرست اور نفس پرست اور مفسد اور مفتری اور خدا پر افتراء کرنے والا قرار دیا ہے… میاں عبدالحکیم نے اسی پر بس نہیں کی۔ بلکہ ہر ایک لیکچر کے ساتھ یہ پیش گوئی بھی صدہا آدمیوں میں شائع کی کہ مجھے خدا نے الہام کیا ہے کہ یہ شخص مرزاقادیانی تین سال کے عرصے میں فنا ہو جائے گا… جب نوبت اس حد تک پہنچ گئی تو اب میں بھی اس امر میں مضائقہ