کے ساتھ اپنے اشد دشمنوں کی زندگی میں ہی ناکام ہلاک ہو جاتا ہے… اور اگر یہ دعویٰ مسیح موعود ہونے کا محض میرے نفس کا افتراء ہے اور میں تیری نظر میں مفسد اور کذاب ہوں اور دن رات افتراء کرنا میرا کام ہے تو اے میرے پیارے مالک میں عاجزی سے تیری جناب میں دعاء کرتا ہوں کہ مولوی ثناء اﷲ صاحب کی زندگی میں مجھے ہلاک کر اور میری موت سے ان کو اور ان کی جماعت کو خوش کر دے۔ مگر اے میرے کامل اور صادق خدا۔ اگر مولوی ثناء اﷲ ان تہمتوں میں جو مجھ کو لگاتا ہے حق پر نہیں تو عاجزی سے تیرے جناب میں دعاء کرتا ہوں کہ تو میری زندگی ہی میں ان کو نابود کر۔ مگر نہ انسانی ہاتھوں سے بلکہ طاعون وہیضہ وغیرہ امراض مہلکہ سے بجز اس صورت کے وہ کھلے کھلے طور پر میرے روبرو اور میری جماعت کے سامنے ان تمام گالیوں اور بدزبانیوں سے توبہ کرے۔ جن کو وہ فرض منصبی سمجھ کر ہمیشہ مجھے دکھ دیتا ہے۔ آمین یا رب العالمین!
مولوی ثناء اﷲ انہیں تہمتوں کے ذریعے سے میری سلسلہ کو نابود کرنا چاہتا ہے اور اس عمارت کو منہدم کرنا چاہتا ہے جو تونے اے میرے آقا اور میرے بھیجنے والے اپنے ہاتھ سے بنائی ہے۔ اس لئے میں تیری ہی تقدس اور رحمت کا دامن پکڑ کر تیری جناب میں ملتجی ہوں کہ مجھ میں اور ثناء اﷲ میں سچا فیصلہ فرما اور جوتیری نگاہ میں درحقیقت مفسد اور کذاب ہے۔ اس کو صادق کی زندگی میں ہی دنیا سے اٹھا لے۔ آمین ثم آمین!‘‘
(مرزاقادیانی کا اشتہار مورخہ ۱۵؍اپریل ۱۹۰۷ئ، مجموعہ اشتہارات ج۳ ص۵۷۸،۵۷۹)
حضرات! یہ مرزاقادیانی کی دعاء ہے جو ثناء اﷲ کے بارے میں کی گئی ہے۔ لیکن یہ دعاء پھر وحی کے لباس میں ملبوس ہوگئی اور قطعی ہوگئی۔ چنانچہ اس کے بعد ۲۵؍اپریل ۱۹۰۷ء کو اخبار بدر قادیان میں مرزاقادیانی کی روزانہ ڈائری میں یہ عبارت شائع ہوگئی کہ: ’’ثناء اﷲ کے متعلق جو کچھ لکھا گیا ہے دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔‘‘ مراد یہ ہے کہ پہلے دعاء کے رنگ میں تھا۔ لیکن اب وحی خداوندی کے رنگ میں ہوکر اٹل پیش گوئی ہوگئی۔ لیکن واہ رے اﷲ تیری قدرت کہ مرزاقادیانی خود مرگئے اور ثناء اﷲ ابھی تک زندہ موجود ہیں اور پھر موت بھی وہی جس کی تمنا تھی۔ یعنی ہیضہ وغیرہ۔ مہلک امراض اور اتنا قادیانیوں کو بھی مسلم ہے کہ مرزاقادیانی کو قے اور دست آئے اور اسی میں مبتلا ہوکر وفات پاگئے۔ ہیضہ نہ سہی وغیرہ کے تحت میں تو داخل ہوگئے اور مرزاقادیانی اپنے ہی معیار مقررہ کے رو سے کذب ودجال ثابت ہوئے۔ کیا اس سے بڑھ کر کوئی دلیل اور ہوسکتی ہے۔ اسی واقعہ کو میرے محترم استاد صاحب