عبدالغفار حسن صاحب وغیرہ حضرات سالہا سال تک جماعت اسلامی سے وابستہ رہنے کے باوجود اس سے الگ ہوگئے اور حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی اور حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی تھوڑا عرصہ ساتھ رہ کر الگ ہوگئے۔ کیونکہ مودودی صاحب اپنی رائے کو حرف آخر سمجھتے تھے اور اب بھی سمجھ رہے ہیں۔
چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ: میں نے دین کو حال یا ماضی کے اشخاص سے سمجھنے کی بجائے ہمیشہ قرآن اور سنت ہی سے سمجھنے کی کوشش کی ہے اور جبھی توخیر سے قدم قدم پر ٹھوکر کھائی ہے۔ (صفدر) اس لئے میں کبھی یہ معلوم کرنے کے لئے کہ خدا کا دین مجھ سے اور ہر مؤمن سے کیا چاہتا ہے۔ یہ دیکھنے کی کوشش نہیں کرتا کہ فلاں اور فلاں بزرگ کیا کہتے ہیں۔ بلکہ صرف یہ دیکھنے کی کوشش کرتا ہوں کہ قرآن کیا کہتا ہے اور رسول (ﷺ) نے کیا کہا۔
(روئیداد جماعت اسلامی حصہ سوم ص۳۷)
بس اسی اعجاب کل ذی رأی برأیہ کے غلط نظریہ نے مودودی صاحب کا بیڑہ غرق کیا ہے اور مولانا امین احسن صاحب اصلاحی نے جماعت سے الگ ہونے کے بعد جو طویل بیان اخبارات میں دیا۔ اس میں یہ جملے بھی نہایت ہی معنی خیز ہیں۔ اگر امیر جماعت مولانا مودودی اپنے غیر جمہوری اور حق وانصاف کے منافی رویہ پر مصر رہے اور ان کی زیرقیادت جماعت کا طریق کار یہی رہا تو اقامت دین کے سلسلہ میں ان اعلیٰ مقاصد کی تکمیل نہیں ہوسکے گی۔ جن کے لئے یہ جماعت سولہ سال قبل معرض وجود میں آئی تھی۔ آپ نے کہا کہ ایسی صورت میں اسے جماعت اسلامی کہنا مناسب نہیں ہوگا۔ بلکہ اسے کچھ اور ہی کہنا پڑے گا۔نیز فرمایا کہ میں نے سولہ سال کے بعد ایک گم کردہ راہ قافلہ کا ساتھ چھوڑا ہے۔ (اخبار نوائے وقت مورخہ ۲۱؍جنوری ۱۹۵۸ئ)
اس لئے ہم بھی اپنے اکابر کی پیروی میں مودودی صاحب کو گمراہ سمجھتے ہیں۔ اﷲتعالیٰ مسلمانوں کو تمام گمراہوں سے بچائے اور محفوظ رکھے۔ آمین ثم آمین۰ وصلے اﷲ تعالیٰ علیٰ خیر خلقہ محمد وعلیٰ آلہ واصحابہ وازواجہ وجمیع متبعیہ الیٰ یوم الدین! احقر ابوالزاہد!
محمد سرفراز… خطیب جامع گکھڑ
مدرس مدرسہ نصرۃ العلوم، گوجرانوالہ
۱۱؍ربیع الثانی ۱۳۹۰ھ