فرماتے ہیں۔ ’’جواب میں یقین سے نہیں کہہ سکتا۔ البتہ میرا قیاس ہے کہ جنت میں جو حوریں ہوںگی وہ یہی کفار کی لڑکیاں ہوںگی۔‘‘ جب مودودی صاحب سے سوال ہوا کہ آپ کے اس خیال کی تائید میں کوئی منقول روایت نہیں ہے۔ اس کے مقابل ایک دوسری رائے یہ ہے کہ حور وغلمان ایک جنتی مخلوق ہوگی۔ تو اس کے جواب میں مودودی صاحب فرماتے ہیں۔
جواب… میری رائے بھی ایک قیاس پر مبنی ہے اور یہ دوسری رائے بھی ایک قیاس ہی ہے۔ میرے قیاس کی بنیاد اس حقیقت پر ہے کہ انسان انسان سے مانوس ہوتا ہے اور وہ غیر انسان میں فطری کشش محسوس نہیں کرتا۔ (ایشیاء لاہور مورخہ ۱۴؍جون ۱۹۶۹ئ)
اس عبارت سے صاف ظاہر ہے کہ مودودی صاحب کے پاس قرآن وسنت اور ان سے ماخوذ اصول سے کوئی دلیل موجود نہیں ہے۔ ہاں البتہ ان کی اپنی ذاتی رائے اور قیاس ہے تو ان کے بیان کردہ ضابطہ کے تحت اس کے گناہ ہونے میں کیا شک ہے؟ مودودی صاحب کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ دوسری رائے بھی ایک قیاس ہی ہے۔ کیونکہ دوسری طرف جملہ اہل اسلام کی رائے ہے۔ جس کو اجماع کی حیثیت حاصل ہے اور اجماع امت شرعی دلائل میں سے ایک مستقل دلیل ہے۔ علاوہ ازیں اس رائے کی بنیاد صرف قیاس پر نہیں بلکہ آنحضرتﷺ کی حدیثوں پر ہے۔ جو روح المعانی کے حوالہ سے حضرت ابوامامہؓ اور حضرت انسؓ سے اوپر بیان ہو چکی ہیں۔ مودودی صاحب کا یہ کہنا کہ: ’’اور یہ دوسری رائے بھی ایک قیاس ہی ہے۔‘‘ بالکل غلط ہے جس چیز کی بنیاد حدیث پر ہو وہ ایک قیاس ہی ہے۔ کیونکر ہوسکتی ہے؟ فرض کر لیجئے کہ یہ روایتیں ضعیف اور کمزور بھی ہوں تب بھی جلیل القدر آئمہ کرامؒ کی تصریح موجود ہے کہ ضعیف حدیث بھی رائے پر مقدم ہے۔ جب مجتہد کی رائے پر مقدم ہے تو غیر مجتہد کی رائے پر بطریق اولیٰ مقدم ہوگی اور پھر ان روایات کی بناء پر اس رائے پر امت کا اجماع ہے تو پوری امت کے اجماع کے مقابلہ میں تنہا مودودی صاحب کی ذاتی رائے اور قیاس کی کیا وقعت ہے؟ ایسی بے بنیاد رائے کے بارے میں یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ ؎
اٹھا کر پھینک دو باہر گلی میں
نئی تہذیب کے انڈے ہیں گندے