اس حدیث سے امور ذیل مستفاد ہوئے۔
۱… عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے اتر کے نکاح کریںگے اور پینتالیس برس کے بعد انتقال فرما جائیںگے۔ مرزاقادیانی کی طرح طویل العمر نہ ہوںگے۔
۲… عیسیٰ علیہ السلام حضور سرور عالمﷺ کے روضۂ منورہ میں مدفون ہوںگے۔ مرزاقادیانی کی طرح پنجاب میں مدفون نہ ہوںگے۔
کیا اس کے بعد کوئی شخص مرزاقادیانی کو مسلمان مجدد (مہدی) یا مسیح سمجھ سکتا ہے۔ اگر مرزاقادیانی کو مسلمان وغیرہ مان لے تو وہ نہ تو اسلام کو سچا سمجھتا ہے نہ رسول اﷲﷺ کو۔
جواب:۷… اس نمبر میں مرزاقادیانی کے دعوے کی دلیل بیان کی ہے۔ دلیل کے دو جز ہیں۔ (الف)ان کے مقابلہ میں کوئی اور ان امور کا مدعی نہیں ہوا۔ (ب)ان کی پیشین گوئیاں صحیح ہوتی تھیں۔
جواب الف… یہ بالکل غلط ہے کہ ان کے مقابلہ میں کوئی اور مدعی نہیں ہوا۔ احمد رضا خان صاحب بریلوی ابھی تک زندہ ہیں۔ جن کو مجدد زمانہ حاضرہ (یعنی اس موجودہ صدی کا مجدد) ہونے کا دعویٰ ہے۔ پھر وہ مرزاقادیانی کے اس قدر مخالف ہیں کہ کافر اکفر اور جہنمی بتاتے ہیں۔ اگر اور مدعی نہ ہوتے تو جناب رسول مقبولﷺ کی ’’ثلثون دجالون کذابون یزعم کل واحد منہم انہ نبی اﷲ وانا خاتم النبیین لا نبی بعدی او کما قال‘‘ والی پیشین گوئی کیسے صادق آتی۔ اس حدیث کا مطلب یہ ہے کہ ظہور امام مہدی علیہ السلام وخروج دجال اکبر سے پہلے تیس دجال گذریں گے۔ جو نہایت جھوٹے ہوںگے اور ان میں سے ہر ایک اپنے کو خدا کا رسول سمجھتا ہوگا۔ حالانکہ میں خاتم النبیین ہوں۔ مجھ پر نبوت ختم ہے۔ میرے بعد کوئی نبی کسی قسم کا نہ ہوگا۔
اس حدیث کی بناء پر مرزاقادیانی کو بھی مجبوراً دجال ماننا پڑتا ہے۔ دجل کے معنی تاریکی کے ہیں۔ دجال تاریکی پھیلانے والا، نور ایمان کو مٹانے والا۔ مرزاقادیانی نے بہت سے قطعی عقائد کے خلاف عقائد تعلیم کئے۔ مثلاً خدا پر کذب کا افتراء یا انبیائے معصومین پر اتہام ان کی توہین وغیرہ جس سے ایمان کی روشنی مٹی اور کفر کی ظلمت بڑھی۔ اس لئے مرزاقادیانی کے دجال ہونے میں اب کیا شبہ رہا۔