سوال یہ ہے کہ کیا مودودی صاحب کا یہ ذاتی خیال جو غیر معصوم اور غیرمجتہد کا خیال ہے۔ قرآن وسنت ہے؟ یا ان سے ماخوذ اصول ہے؟ اگر ان کا یہ خیال قرآن وسنت نہیں اور یقینا نہیں تو وہ اپنے قائم کردہ اصول وضوابط کے تحت یہ رائے قائم کر کے بڑے سے بڑے گناہ کے مرتکب ہوئے ہیں کہ اس کے مقابلہ میں دوسرے کبائر کی کیا حقیقت ہے؟ اور وہ دین کے پیرو نہیں بلکہ اپنی آراء اور رجحانات کے پیرو ہیں۔ اﷲتعالیٰ تمام مسلمانوں کو اس سے محفوظ رکھے۔
سوم… قرآن وحدیث میں صراحت سے یہ مذکور ہے کہ اہل جنت کو حوریں مرحمت ہوںگی۔ جن کے بارے میں حضرت ابوامامہؓ اور حضرت انسؓ آنحضرتﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ حوروں کا مادہ زعفران ہے اور حضرت زید بن اسلمؒ فرماتے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے حوروں کو مٹی سے نہیں بلکہ کستوری کافور اور زعفران سے پیدا کیا ہے اور حضرت کعب احبارؒ فرماتے ہیں کہ حوریں دنیا کی عورتیں نہیں ہیں۔ (ملخصاً روح المعانی ج۲۵ ص۱۲۴)
اور اگر بالفرض حوریں دنیا کی عورتیں ہوں تب بھی مؤمنوں کی عورتیں ہوںگی نہ کہ کافروں کی۔ لیکن مودودی صاحب لکھتے ہیں کہ: ’’بعید نہیں ہے کہ یہ وہ لڑکیاں ہوں جو دنیا میں سن رشد کو پہنچنے سے پہلے مرگئی ہوں اور جن کے والدین جنت میں جانے کے مستحق نہ ہوئے ہوں۔ یہ بات اس قیاس کی بناء پر کہی جاسکتی ہے کہ جس طرح ایسے لڑکے اہل جنت کی خدمت کے لئے مقرر کر دئیے جائیںگے اور وہ ہمیشہ لڑکے ہی رہیںگے۔ اسی طرح ایسی لڑکیاں بھی اہل جنت کے لئے حوریں بنادی جائیںگی اور وہ ہمیشہ نوخیز لڑکیاں ہی رہیں گی۔ واﷲ اعلم بالصواب!‘‘
(تفسیر تفہیم القرآن ج۴ ص۲۸۷ حاشیہ نمبر۲۹)
سوال یہ ہے کہ قرآن وسنت اور ان سے ماخوذ اصول کی وہ کون سی واضح دلیل ہے جس سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ حوریں کافروں کی نابالغ لڑکیاں ہوںگی؟ اور قرآن وسنت اور ان سے ماخوذ اصول کا اس پر کون سا حوالہ موجود ہے کہ ان نابالغ لڑکیوں کو بالغ کر کے اور قابل انتفاع بناکر جنتیوں کے لئے حوریں بنایا جائے گا؟ اور اگر اس پر قرآن وسنت اور ان سے ماخوذ اصول کا ثبوت نہیں اور یقینا نہیں تو مودودی صاحب اپنے رجحانات اور آراء کے پیرو ہیں۔ دین کے پیرو نہیں ہیں اور یہ خود ان کے اقرار سے بڑا گناہ ہے۔ دوسرے کبائر اس کے مقابلہ میں کیا حقیقت رکھتے ہیں؟ مودودی صاحب سے جب حوروں کے بارے میں سوال ہوا تو اس کے جواب میں وہ