سترہ ماہ رخ کر کے نماز پڑھی ہے۔ لیکن مودودی صاحب یہ کہتے ہیں کہ آپ نے ساڑھے چودہ برس قبلۂ اوّل کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی ہے۔ اس میں کچھ اختلاف ہے کہ واقعہ معراج کس سن میں ہوا؟ امام ابن عبدالبرؒ وغیرہ کی تحقیق یہ ہے کہ ہجرت سے ایک سال اور دوماہ پہلے ہوا۔
(زاد المعاد ج۲ ص۴۹)
اور اس پر صحیح اور صریح روایات کی روشنی میں سب کا اتفاق ہے کہ پانچ نمازیں معراج کی رات فرض ہوئی ہیں۔ گویا آنحضرتﷺ نے تقریباً گیارہ سال اور کچھ ماہ فرض نمازیں پڑھیں اور مودودی صاحب کی اس انوکھی تحقیق سے یہ لازم آتا ہے کہ یہ سب نمازیں بجائے کعبہ کے قبلۂ اوّل اور مسجد اقصیٰ کی طرف رخ کر کے ہی ہوتی رہیں اور کوئی نماز کعبہ کی طرف رخ کر کے نہیں پڑھی گئی۔ فوا اسفا!
بخاری اور مسلم کی ان صحیح حدیثوں کے خلاف مودودی صاحب کی یہ تحقیق ان کی نئی تجدیدی کارروائی اور نیا مجددانہ انکشاف ہے اور بخاری اور مسلم پر غالباً اس لئے انہوں نے اعتماد نہیں کیا کہ وہ حدیث کے پرانے ذخیرہ میں شامل ہیں اور ان کا اپنا بیان یہ ہے کہ اس کے ساتھ علوم اسلامیہ کو بھی قدیم کتابوں سے جوں کا توں نہ لیجئے۔ بلکہ ان میں سے متأخرین کی آمیزشوں کو الگ کر کے اسلام کے دائمی اصول اور حقیقی اعتقادات اور غیر متبدل قوانین کو لیجئے۔ ان کی اصلی اسپرٹ دلوں میں اتاریں اور ان کا صحیح تدبر دماغوں میں پیدا کیجئے۔ اس غرض کے لئے آپ کو بنا بنایا نصاب کہیں نہ ملے گا۔ ہر چیز ازسرنو بنانی ہوگی۔ قرآن اور سنت رسول اﷲﷺ کی تعلیم سب پر مقدم ہے۔ مگر تفسیر وحدیث کے پرانے ذخیروں سے نہیں۔ ان کے پڑھانے والے ایسے ہونے چاہئیں جو قرآن اور سنت کے مغز کو پاچکے ہوں۔
(تنقیحات ص۱۷۵، طبع ہشتم اسلامک پبلیکیشنر لاہور، عنوان ہمارے نظام تعلیم کا بنیادی نقص)
ملاحظہ کیجئے کہ مودودی صاحب نے کس طرح تفسیر اور حدیث کے پرانے ذخیروں پر بے اعتمادی کا اظہار کیا ہے اور ظاہر بات ہے کہ بخاری اور مسلم تو حدیث کے پرانے ذخیروں میں شامل ہیں۔ اس لئے ان کی صحیح روایتیں اگر مودودی صاحب کے نزدیک قابل اعتماد نہ ہوں تو ان کے نزدیک تو یہ بات قابل تعجب نہیں ہے۔ لیکن بحمداﷲ تعالیٰ مسلمان حدیث وتفسیر کے پرانے ذخیروں سے کس طرح بے اعتنائی نہیں کر سکتے اور حضرات محدثینؒ وفقہاء اور مفسرینؒ کی ان دینی کوششوں کو عقیدت کی نظر سے دیکھتے اور ان کو اپنے دین کی تشریح وتفسیر کا بہترین سرمایہ