کہ حاجی صاحب مجھے انہوں نے چھوڑنا نہیں ہے۔ کیونکہ میں نے جلسہ خراب کیا ہے۔ اس لئے میں چھپنا نہیں چاہتا۔
گرفتاریاں
۲۵؍جولائی ۱۹۷۴ء ہی کو صوفی محمد علی حاجی احمد کی دکان پر بیٹھا ہوا تھا کہ ان کے پاس شیخ عبدالمجید تھانیدار آیا۔ انہیں گرفتار کر کے تھانے میں الگ کمرے میں بند کر دیا۔ ان کے علاوہ جتنے بھی علماء کرام نظر آئے۔ ان سب کو گرفتار کر لیا گیا۔ مسجد میں نماز پڑھانے والا، کوئی نہ رہا۔ ملّا خاٹول تین دن تک چھپا ہوا تھا۔ تیسرے دن جب مسجد آیاتو مغرب کی نماز پڑھانے کے بعد انہیں بھی گرفتار کر لیا گیا۔
مولوی نور محمد کو منیٰ بازار لیویز بھیج کر بلالیا گیا۔ مولانا شمس الدینؒ کے چچازاد بھائی مولوی احمد شاہ کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ مولانا میرک شاہ صاحب، حافظ علیم الدین موسیٰ خیل، ملا اسحق اور جمعیت علماء اسلام کے اراکین کی بڑی تعداد میں گرفتاری عمل میں آئی۔ صوفی محمد علی کو الگ کمرہ میں رکھا گیا۔ انہیں سونے کے لئے بسترہ تک نہیں دیا۔
طالب نامی پولیس مین (جو کہ لورالائی کا رہنے والا تھا) نے قیدیوں کو گالیاں دیں اور کہا کہ تم سب لوگ بے ایمان ہو۔ قیدیوں نے گیارہ دن تھانے میں گذارے۔ اس کے بعد انہیں سب جیل منتقل کر دیا گیا۔ جب یہ قیدی جیل چلے گئے تو طالب پولیس والا بیمار پڑ گیا۔ اس کی نکسیر پھوٹ گئی اور مرغا کبزئی (ژوب سے ۵۵میل کے فاصلے پر واقع گاؤں) میں مرگیا۔ پھر انہیں گھر پہنچا دیا گیا۔
اسمبلی میں بحث
بھٹو صاحب نے یہاں سے واپس اسلام آباد اسمبلی میں مرزائیوں کا کیس پیش کردیا۔ چنانچہ مرزاناصر کو اسلام آباد میں اپنا مؤقف پیش کرنے کے لئے طلب کیاگیا۔ وہاں پر چودہ دن تک بحث ومباحثہ ہوا۔ جس میں کتابیں مولانا عبدالرحیم اشعرؒ صاحب پیش کرتے تھے اور پیرزادہ وزیر تعلیم کو یہ بتایا گیا کہ مرزائی غلام احمد نے لکھا ہے کہ جو مرزاغلام احمد کو نبی نہیں مانتے وہ کنجری اور جنگلی سورؤں کی اولاد ہیں۔ یہ سن کر پیرزادہ نے کہا کہ مرزائی تو پکے بے ایمان ہیں۔
مفتی محمود صاحبؒ نے بھٹو صاحبؒ کو صاف صاف بتلایا کہ یہ ۱۹۵۳ء کی بات نہیں ہے۔ جس میں ختم نبوت والوں پر گولیاں چلائیں گئیں اور انہیں شہید کر دیا گیا۔ قوم میں اشتعال