بالاتفاق دستخط کرائے اور ان پوسٹرز کو نائب امیر محمد عمر عبداﷲ زئی کے حوالہ کر دیا۔ بھٹو کے ژوب میں آنے پر سب لوگوں میں یہ بینرز بانٹ دئیے گئے۔ جلسہ کے وقت بطور حفاظت ملیشیا کے ۶۰ گھوڑے تعینات کئے گئے۔ ملٹری بھی تھی۔ بھٹو صاحب جب سٹیج پر تشریف لائے تو ختم نبوت کے اراکین نے ان سے صاف صاف کہہ دیا کہ بھٹو صاحب آپ مرزائیوں کے ایجنٹ ہیں۔ آپ ہی مولوی شمس الدین کے قاتل ہیں۔ اب آپ پھر ژوب آئے ہیں اور عوام سے خطاب کر رہے ہیں۔ بھٹو صاحب چلّا چلّا کر کہنے لگے۔ بیٹھو بھائی، سنو بھائی۔
اس کے بعد بھٹو صاحب پر ٹماٹروں، پیازوں اور انڈوں کی بوچھاڑ شروع کر دی گئی۔ جس کے نتیجہ میں جلسہ منتشر ہوا۔ جام غلام قادر کٹورئی ایک طرف بھاگ رہے تھے۔ نواب تیمور شاہ اور پولٹیکل ایجنٹ نے بھٹو صاحب سے گولی چلانے کو کہا۔ مگر بھٹو صاحب نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ سب نے بھاگنا شروع کر دیا۔ پولٹیکل ایجنٹ محبت خان ایک طرف کو بھاگ رہے تھے تو باقی لوگ دوسری جانب کو بھاگ رہے تھے۔ یوں بھٹو صاحب جلسہ نہ کر سکے۔ تمام وزراء کسی نہ کسی طرح جان چھڑا کر چلے گئے۔ جب جلسہ ختم ہوا تو نائب امیر ختم نبوت محمد عمر کو گرفتار کر لیا گیا۔ بھٹو صاحب نے رات وہیں ژوب میں بسر کی۔ اس رات بھٹو صاحب نے غصہ میں تمام وزرائ، پولٹیکل ایجنٹ، پیپلزپارٹی کے اہلکاروں سے کہا کہ تم لوگوں نے مجھے اس بے عزتی کے لئے بلایا تھا۔ جب صبح ہوئی تو بھٹو صاحب جہاز میں بیٹھ کر ژوب سے روانہ ہوئے۔ سب سے پہلے شغالہ گئے۔ اس کے بعد قمرالدین، وہاں پر سب ملکوں کو بلاکر ان میں خوب رقم بانٹ دی۔ وہاں ہی سے پھر بھٹو صاحب مسلم باغ گئے۔ مسلم باغ میں بھی خوب رقم تقسیم کی۔ مگر وہ حالات سے اس حد تک پریشان تھے کہ کوئٹہ کے جلسہ میں جاکر ۷؍ستمبر ۱۹۷۴ء کی مرزائیوں کے فیصلہ کے لئے تاریخ مقرر کردی۔ ورنہ پہلے وہ تاریخ مقرر نہ کر رہے تھے۔
یوں بحمدہ تعالیٰ اہالیان ژوب نے ۱۹۷۴ء کی تحریک ختم نبوت میں فیصلہ کن قائدانہ کردار ادا کیا۔ ان حالات میں ۲۵؍جولائی کو ناظم اعلیٰ صوفی محمد علی نے کوئٹہ اور ملتان ختم نبوت کے تمام علماء کو تاردیا۔ (جو کانفرنس کرنے کے لئے ژوب آنے والے تھے) ان حالات میں کانفرنس ملتوی کر دی گئی۔ کیونکہ منتظمین کا کوئی اعتبار نہیں تھا۔ کسی بھی وقت وہ گرفتار ہو سکتے تھے۔
حاجی محمد یٰسین مندوخیل کو بھی گرفتار کیا۔ وہ چونکہ بیمار تھا۔ اس لئے اٹھائیس دن تک ہسپتال میں رکھا۔ اسی دوران امیر ختم نبوت شیخ محمد عمر نے صوفی محمد علی سے کہا کہ میں آپ کو پناہ دے دوںگا۔ تاکہ پولیس آپ کو گرفتار نہ کر سکے۔ مگر صوفی محمد علی نے پناہ لینے سے انکار کر دیا اور کہا