رہائی
ژوب میں تمام قیدیوں کو ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ اس کے بعد امیر ختم نبوت شیخ محمد عمر نے ان قیدیوں اور ختم نبوت کے دیگر پروانوں کو بڑی پرتکلف دعوت دی۔ قیدیوں کو رہا کرنے کے بعد تمام قیدیوں نے مولانا شمس الدینؒ کی رہائی کا مطالبہ کیا۔ ظریف شہید پارک میں خیمہ گاڑ کر شہریوں نے بھوک ہڑتال کی۔ یہ ہڑتال مولانا شمس الدینؒ کی رہائی کے واسطے کی گئی۔ ۱۵،۱۶دن کے بعد بگٹی ایس۔بی اعوان نے ان کی رہائی کا مطالبہ منظور کر لیا اور انہیں کوئٹہ پہنچا دیا گیا۔ کوئٹہ سے آنے پر ژوب سے ایک میل کے فاصلے پر تمام شہر والوں نے مولانا شمس الدینؒ کا استقبال کیا۔ وہ منظر قابل دید تھا۔ پورا ماحول ختم نبوت زندہ باد کی فضاؤں سے گونج رہا تھا۔
جلسہ عام
دوسرے دن جامع مسجد میں جلسہ عام ہوا۔ مولانا شمس الدین نے اپنے تاثرات بیان کئے اور بھٹو کے ساتھ اپنی ملاقات کے بارے میں بھی بتایا۔ بھٹو نے مولانا شمس الدینؒ سے کہا تھا کہ ہم بینک کا چیک آپ کے ہاتھ میں دے دیںگے۔ آپ جتنی رقم چاہیں لے لیں۔ مگر مولانا شمس الدینؒ نے رقم لینے سے انکار کر دیا اور صاف صاف بتادیا کہ جو اﷲ اور اس کے رسول پر فروخت ہو جائے پھر وہ کسی اور کے ہاتھوں فروخت نہیں ہوسکتا۔ یہ سننے کے بعد بھٹو صاحب نے اسی وقت آپ سے کہا تھا کہ ملاّ پھر گولی کے لئے تیار ہو جاؤ۔ آپ نے کہا مجھے منظور ہے۔ اس کے بعد مولانا شمس الدینؒ حج پر گئے۔ حج سے واپسی پر سیدھے خانپور گئے اور مولانا درخواستی صاحبؒ سے ملاقات کی۔ درخواستی صاحبؒ نے بعد میں بتایا کہ مولوی شمس الدینؒ کو دیکھ کر میں نے اسی وقت محسوس کر لیا کہ یہ آدمی بچنے والا نہیں ہے۔ ضرور شہید ہوگا۔ وہاں سے پھر مولانا شمس الدینؒ کوئٹہ آئے۔
مولانا شمس الدینؒ کی شہادت
کوئٹہ سے ژوب آتے ہوئے بگٹی کے مقام پر مولانا شمس الدینؒ مردہ پائے گئے۔ ملک گل حسن کے پیٹرول کی گاڑی اس وقت وہاں سے گذر رہی تھی۔ انہوں نے ژوب اطلاع کر دی کہ مولوی صاحب موٹر میں مردہ پڑے ہیں۔ کوئی دوسرا آدمی نہیں ہے۔ لوگ وہاں گئے اور انہیں ژوب لے آئے۔ یوں بھٹو حکومت کی شرارت پر ۱۳؍مارچ ۱۹۷۴ء کو مولانا شمس الدینؒ نے جام شہادت نوش کر لیا۔ گھر لانے پر سب گھر والوں، عزیزواقارب اور دوستوں