سے کہا کہ یہ میرا سینہ گولی کے لئے بنا ہوا ہے۔ شہادت کا رتبہ مل کر مجھے بڑی خوشی ہوگی۔ گھر میں سب نے رونا دھونا شروع کیا۔ آپ نے سب کو تسلی دیتے ہوئے کہا کہ مرنا تو ایک دن ہے۔ روز روز کیا مرنا۔ اس سے قبل جب مولانا شمس الدینؒ دفعہ ۱۴۴ کو توڑ رہے تھے تو اس وقت بھی گھر میں والدہ نے ایک بیل کی منت مانی۔ والد مولوی زاہد صاحب نے دو دنبوں کی منت مانی۔ بہنوں نے نفلیں مانیں اور جب وہ سرخ لکیروں کو پار کر گئے تو سب نے چین کا سانس لیا۔ مولانا شمس الدین پہلے سے ہی اپنی بہنوں سے کہہ چکے تھے کہ اگر ختم نبوت کے لئے شہید ہو جاؤں تو مجھے مبارک باد دینا۔ جب پولیس مولانا کو گرفتار کر کے لے جارہی تھی تو ان سب لوگوں نے اپنے ہاتھوں میں لاٹھیاں وغیرہ لیں اور انہیں کپڑوں سے چھپا لیا تاکہ پولیس والے سمجھیں کہ یہ رائفل ہیں۔ مورچے سنبھال لئے۔ ملیشیا والے سمجھ گئے کہ بندوق ہیں۔ چنانچہ قبیلہ والوں نے کہا کہ آپ مولانا شمس الدینؒ کو ہماری عورتوں سے بھی نہیں لے جاسکتے ہیں۔ ہم تو مرد ہیں۔ ملیشیا والے رک گئے اور انہیں بتایا کہ مولوی صاحب کو واپس شغالہ پوسٹ لے جاؤ۔ چنانچہ اسے واپس شغالہ پوسٹ پہنچا دیا گیا اور حکومت کو اطلاع کر دی کہ ہم لوگ مولوی شمس الدین صاحب کو باہر نہیں لے جاسکتے ہیں۔ پھر حکومت نے ہیلی کاپٹر کا بندوبست کیا۔ ہیلی کاپٹر میں شغالہ سے مولانا شمس الدین کو سوار کر کے سیدھا میوند پہنچایا گیا۔ میوند میں دس پندرہ پوسٹ میں انہیں پھرایا گیا۔ احتجاجی ہڑتال، چار سو عالم تحریک کے حالات، میں گورنر بگٹی اور ایس۔بی اعوان مجبور ہوگئے اور انہوں نے سبی میں موجود قیدیوں کو رہا کرنے کا حکم دیا۔ سوائے غازی عبدالرحمن زرگر کے، چنانچہ تحصیلدار محمد جان مندوخیل، مولوی محمد خان شیرانی، حاجی شیخ عمر، صوفی محمد علی وغیرہ نے فیصلہ کرایا کہ ہم لوگ عبدالرحمن کے بغیر نہیں جائیںگے۔ عبدالرحمن کو فرنٹ سیٹ پر بٹھایا جائے تب ہم جائیںگے۔
قیدیوں کا مطالبہ مان لیا گیا
۲۴؍جولائی۱۹۷۳ء کو دن کے تقریباً ایک بجے پولیس کی بندگاڑی میں بٹھا کر سبی سے سب قیدیوں کو روانہ کیاگیا۔ عبدالرحمن زرگرکو فرنٹ سیٹ پر بٹھایا گیا۔ عصر کے وقت کوئٹہ پہنچے۔ کوئٹہ سے ۱۵میل کے فاصلے پر جمعیت علماء اسلام کے نمائندے عبدالمنان کاکڑ بازئی نے کچلاک میں ۳۲آدمیوں کے کھانے کا بندوبست ہوٹل میں کیا۔ کھانا کھانے کے بعد وہاں سے روانہ ہوئے۔ رات بھر سفر کیا۔ قلعہ سیف اﷲ جب پہنچے تو وہاں پر خوب بارش ہوئی۔ کچھ دیر کے لئے وہاں پر ٹھہرے۔ قلعہ سیف اﷲ ہی میں کوئٹہ والے سات آدمی بھی پہنچ گئے۔ صبح تقریباً نوبجے ژوب پہنچ گئے۔