ادھر شہر میں جس وقت مرزائیوں کو نکالا جارہا تھا تو غازی عبدالرحمن بنگش زرگر نے پستول سے فائر کر کے ایک قادیانی اﷲ یار کو زخمی کر دیا۔ چنانچہ غازی عبدالرحمن کو بھی گرفتار کر کے حوالات میں قیدیوں کے ساتھ بند کر دیا۔ وفاقی فورس ان قیدیوں کی نگرانی کے لئے تعینات کر دی گئی۔ وہ ان قیدیوں کو شہر سے باہر منتقل کرنا چاہتے تھے۔ مگر تمام قیدیوں نے باہر جانے سے انکار کر دیا۔ وفاقی فورس پر گورنر بگٹی بڑے برہم ہوئے اور تشدد کا حکم دے دیا۔ ایس بی اعوان بھی یہی چاہتے تھے۔
حکم ماننے سے انکار کر دیا
مگر وفاقی فورس جس میں سرحد کے پٹھان تھے۔ انہوں نے ختم نبوت تحریک کے کارکنوں پر تشدد کرنے اور گولیاں چلانے سے انکار کر دیا۔
ژوب کی سرزمین سراپا احتجاج بن گئی
قیدیوں کے چلے جانے کے بعد جب اہالیان ژوب کو معلوم ہوا کہ ان کے ساتھ حکومت نے دھوکہ کیا ہے۔ انہوں نے شہر میں مکمل ہڑتال کر دی۔ پہیہ جام ہڑتال، یہ صورتحال اٹھ دن تک جاری رہی۔ مغرب کے قریب ایک آدھ دکان کھلتی لوگ خوردونوش کا سامان لے لیتے۔ دن بھر مکمل بازار سنسان، ہوکا عالم چار سو ویرانہ، حکومت اس صورتحال سے سخت پریشان ہوگئی۔ جناب عبدالرحیم ایڈووکیٹ اور جناب صالح محمد خان کو مجلس عمل کی سربراہی سونپی گئی۔ ژوب روڈ بلاک کر دیا گیا۔ شیرین روڈ، وزیرستان روڈ، دانا سر روڈ، لورا گئی روڈ سب بند کر دئیے گئے۔ ملٹری وغیرہ یا حکومت کی کوئی گاڑی اگر ایمرجنسی جانا ہوتا تو مجلس عمل سے اجازت نامہ لے کر چل سکتے تھے۔ ورنہ نہیں۔ گویا حکومت وانتظامیہ عملاً معطل اور مجلس عمل کا چارسو غلغلہ بند ہورہا تھا۔ جس دن قیدیوں کو کوئٹہ لے جایا گیا۔ اسی رات مجلس عمل کے زیر اہتمام ژوب میں عدیم المثال جلسہ عام منعقد ہوا۔ سخت احتجاج کیاگیا اور قیدیوں کی بلا مشروط رہائی تک ہڑتال واحتجاج کو جاری رکھنے کا اعلان کیاگیا۔ جلسہ کے نتیجہ میں رات مولانا شمس الدین شہیدؒ کو گرفتار کر لیا گیا۔
مولانا شمس الدینؒ کی گرفتاری
اسی رات کو چار بجے کے وقت وفاقی پولیس نے مولانا شمس الدینؒ کے گھر پر گھیرا ڈال دیا۔ مولانا شمس الدینؒ کو گھر سے نکل آنے کا حکم دیا۔ مولانا شمس الدینؒ کی بہنوں نے آپ کی پگڑی اور چپلی کو چھپا دیا کہ ہم آپ کو نہیں جانے دیںگے۔ اس پر مولانا شمس الدینؒ نے کہا کہ خدا کے لئے شرم کی بات ہے۔ ہماری پگڑی اور چپلی دے دو۔ اسی وقت انہوں نے اپنی بہنوں اور اہلیہ