نکالا گیا۔ شہر میں ہڑتال ہوگئی۔ پورا شہر سڑکوں پر امڈ آیا۔ رزاق نامی بہائی کی دکان کھلی دیکھ کر مظاہرین نے اس پر پتھراؤ کیا۔ رزاق زخمی ہوکر ہسپتال پہنچ کر دم توڑ گیا۔
جلوس شہر کے مختلف راستوں سے گذر کر ڈی۔سی آفس گیا اور بالاتفاق ایک ہی مطالبہ کیا کہ مرزائیوں کو ہمیشہ کے لئے فورٹ سنڈیمن (ژوب) سے نکال دیا جائے۔ اس سے کم کسی بات پر سمجھوتہ ناممکن ہے۔ احتجاجی جلوس، ہڑتال اور مظاہروں کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ حکومت نے حالات کی نزاکت کے پیش نظر مرزائیوں کو فورٹ سنڈیمن ضلع سے ہمیشہ کے لئے نکالنے کا وعدہ کر لیا۔ مگر عوام کے جوش وخروش کا یہ عالم تھا کہ انہوں نے بالاتفاق کہہ دیا کہ جب تک اس وعدہ پر عمل درآمد نہیں ہوتا۔ ہڑتال واحتجاج کا سلسلہ جاری رہے گا۔
ہمیشہ کے لئے ژوب سے مرزائیوں کو نکال دیا گیا
بلوچستان کو احمدی صوبہ بنانے کا مرزامحمود نے ۱۹۴۸ء میں اپنی جماعت کو مژدہ سنایا۔ مگر آج ۱۶؍جولائی ۱۹۷۳ء کو چشم فلک نے یہ نظارہ بھی دیکھا کہ وہی صوبہ جس کی طرف مرزائی للچائی ہوئی نگاہوں سے دیکھ رہے تھے۔ آج اس کے ایک اہم ضلع ژوب سے ہمیشہ کے لئے مرزائیوں کو وفاقی فورس نے نکال دیا۔ چنانچہ پاکستان کی تاریخ میں یہ واحد ضلع ہے جہاں حکماً مرزائیوں کا داخلہ بند کر دیا گیا اور یوں مرزائی نحوست کو اس ضلع سے دیس نکالا دے دیا گیا۔ ژوب کے عوام، مجلس کے کارکن، تمام علماء کرام بالخصوص حضرت مولانا شمس الدین شہیدؒ جو ان دنوں بلوچستان اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر تھے۔ اس عظیم معرکہ کو سرکرنے کا سہرا ان کے سر ہے۔ ان دنوں ژوب کے ڈپٹی کمشنر فقیر محمد صاحب بلوچ تھے۔ جو آج کل صوبائی حکومت کے چیف سیکرٹری ہیں۔
تحریک ختم نبوت کے کارکنوں وراہنماؤں کی گرفتاری
بہائی رزاق کے مرنے کی وجہ سے تحریک ختم نبوت کے ۳۴کارکنوں ورہنماؤں کو تھانہ میں بند کر دیا گیا۔ شیخ محمد خان انسپکٹر پولیس نے گفتگو کے لئے بلایا اور دھوکہ سے بند کر دیا۔ ان دنوں بلوچستان کے گورنر اکبر بگٹی تھے اور چیف سیکرٹری ایس بی اعوان مرزائی تھے۔ وہ فورٹ سنڈیمن سے مرزائیوں کے اخراج پر سیخ پاتھے۔ مگر عوام کے جوش وخروش کے سامنے دم مارنے کی ان کو ہمت نہ تھی۔
چنانچہ بہائی رزاق کے قتل کے جرم میں ۳۴آدمی تھانہ میں بند کر دئیے گئے۔ صبح سویرے مولانا شمس الدین ڈپٹی سپیکر بلوچستان اسمبلی اور حافظ نور الحق صاحب بھی تھانہ میں قیدیوں کے ہمراہ شامل ہوگئے۔