العلم یؤخذ عن ستۃ عمرؓ وعلیؓ وابیؓ وابن مسعودؓ زیدؓ وابی موسیٰؓ وقال ایضاً قضاۃ الامۃ اربعۃ عمرؓ وعلیؓ زید والوموسیٰ رضی اﷲ تعالیٰ عنہم (تذکرۃ الحفاظ ج۱ ص۲۳)‘‘ {علم کا مرکز چھ حضرات تھے۔ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت ابیؓ، حضرت بن مسعودؓ، حضرت زیدؓ اور حضرت ابوموسیٰؓ اور نیز انہوں نے فرمایا کہ امت کے حج اور قاضی چار ہیں۔ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت زیدؓ بن ثابت اور حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ۔}
یعنی یہ وہ حضرات ہیں جن سے علم دین اخذ کیا جاتا تھا اور امت مسلمہ کے وہ مسلم قضاۃ وجج تھے اور حضرت صفوان بن سلیمؒ الامام المدنی الفقیہؒ (المتوفی ۱۳۲ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’لم یکن یفتی فی زمن النبیﷺ غیر عمرؓ وعلیؓ ومعاذؓ وابی موسیٰؓ (تذکرۃ الحفاظ ج۱ ص۲۳)‘‘ {آنحضرتﷺ کے زمانہ میں ان چار حضرات کے بغیر اور کوئی فتویٰ نہیں دیتا تھا۔ وہ حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت معاذؓ اور حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ ہیں۔}
آپ حضرات بخوبی اس مقالہ میں مرتد کے بارے ان حضرات کے فتویٰ اور فیصلے پڑھ چکے ہیں۔
اس مقالہ میں پیش کئے گئے واضح اور صریح حوالوں سے یہ بات ثابت ہو گئی ہے کہ مرزائیوں کی دونوں پارٹیاں قادیانی اور لاہوری اسلامی حکومت میں شرعاً واجب القتل ہیں۔ اگر کوئی اسلام سے پھر کر مرزائی ہوا ہو تو مرتد ہونے کی وجہ سے واجب القتل ہے اور اگر کوئی نسلاً بعد نسلٍ مرزائی چلا آتا ہے تو زندیق ہونے کی وجہ سے واجب القتل ہے اور یہی حکم ہے۔ ہر اس گمراہ پارٹی یا فرد کا جو ضروریات دین میں سے کسی چیز کا منکر یا مؤوں ہو۔ ملاحظہ ہو (شامی ج۳ ص۳۲۵) مگر یہ یاد رہے کہ کسی کو حداً یا تعزیراً قتل کرنا۔ صرف اسلامی حکومت اور عدالت شرعیہ کا کام ہے۔ عوام کو قانون اپنے ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ صرف وہی کام کرتے اور کر سکتے ہیں۔ جس کا انہیں اختیار دیاگیا ہے۔ اس کے علاوہ وہ مجبور ہیں ؎
میری مجبوریوں کو کون جانے
میں خود مختار ٹھہرایا گیا ہوں
پاکستان میں قادیانیوں کی تعداد
قادیانی فرقہ جس طرح آنحضرتﷺ کے بعد اجراء نبوت، حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات اور مرزاقادیانی کو نبی یا مصلح اور مسیح موعود ماننے وغیرہ کے دعوؤں میں سراسر جھوٹا ہے۔ اسی طرح عوام الناس کو بہکانے کی خاطر اپنی تعداد بھی بڑھاچڑھا کر بتلانے اور اس کا پروپیگنڈا