توبہ کا مطالبہ اس میں مذکور نہیں ہے۔}
ان تمام صریح حوالوں سے مرتد کا قتل کرنا آفتاب نصف النہار کی طرح ثابت ہے۔ علامہ ابو محمد بن حزمؒ لکھتے ہیں کہ قتل مرتد کا معاملہ امت میں ایسا معروف ومشہور ہے کہ کوئی مسلمان شخص اس کے انکار پر قادر نہیں۔ (المحلی ج۸ ص۲۲۲) ان کے علاوہ بھی کتب فقہ وفتاویٰ میں قتل مرتد کی تصریح موجود ہے۔ مثلاً (ہدایہ ج۲ ص۶۰۰، فتح القدیر ج۴ ص۳۸۶، شامی ج۳ ص۳۹۴، بحر الرائق ج۵ ص۱۲۵) وغیرہ۔
علامہ علاؤالدین ابوبکر مسعود کاسانی (المتوفی ۵۷۸ھ) فرماتے ہیں کہ مرتد کے قتل کرنے پر حضرات صحابہ کرامؓ کا اجماع ہے۔ البتہ مستحب یہ ہے کہ مرتد کو تین دن تک بند رکھا جائے۔ اگر وہ اسلام قبول کرے تو اچھا ہے۔ ورنہ اسے قتل کر دیا جائے۔
(بدائع الصنائع ج۷ ص۱۳۴)
امام موفق الدین ابن قدامہؒ تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’واجمع اہل العلم علیٰ وجوب قتل المرتد رویٰ ذالک عن ابی بکرؓ وعمرؓ وعثمانؓ وعلیؓ ومعاذؓ وابی موسیٰؓ وابن عباسؓ وخالدؓ وغیرھم ولم ینکر ذلک فکان اجماعاً (مغنی ابن قدامہ ج۸ ص۱۲۳)‘‘ {اہل علم کا قتل مرتد پر اجماع ہے۔ حضرت ابوبکرؓ، حضرت عمرؓ، حضرت عثمانؓ، حضرت علیؓ، حضرت معاذؓ، حضرت ابو موسیٰ الاشعریؓ، حضرت ابن عباسؓ اور حضرت خالد بن الولید وغیرہم سے یہی مروی ہے اور حضرات صحابہ کرامؓ کے دور میں اس کا کوئی انکار نہیں کیاگیا تو یہ اجماعی مسئلہ ہے۔}
قارئین کرام! غور فرمائیں کہ جس مسئلہ پر قرآن کریم اور صحیح احادیث سے واضح دلائل موجود ہوں اور جس مسئلہ پر حضرات خلفاء راشدینؓ متفق ہوں اور جس مسئلہ پر حضرت معاذ معاذؓ اور حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ، جیسی شخصیتیں متفق ہوں جو اپنے دور میں گورنری کے عہدہ پر فائز تھیں اور جس مسئلہ پر حضرت ابن عباسؓ جیسے ترجمان القرآن اور حبرالامت متفق ہوں اور جس مسئلہ پر حضرت خالد بن ولیدؓ جیسے مجاہد اور فوج کے سپہ سالار متفق ہوں اور جس مسئلہ پربقیہ حضرات صحابہ کرامؓ میں کوئی ایک فرد بھی اس کے خلاف لب کشائی نہ کرتا ہو اور جس مسئلہ پر حضرات ائمہ اربعہ اور جمہور ائمہ کرامؒ متفق ہوں اور جس مسئلہ کے خلاف کوئی مسلمان انکار کرنے پر قادر نہ ہوا ہو تو اس مسئلہ کے حق اور ثابت ہونے میں کیا شک وشبہ ہو سکتا ہے۔
حضرت امام ابو عمر وعامرؒ بن شراحیل شعبیؒ (المتوفی ۱۰۹ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’کان