اس کے بعد اس کا قتل کرنا واجب ہے۔ امام عبدالرؤف منادیؒ فرماتے ہیں کہ الفاظ کا عموم مرد اور عورت دونوں کو شامل ہے۔ مرتد مرد کے قتل کرنے پر تو اجماع ہے اور مرتد عورت کے کرنے پر تین اماموں کا اتفاق ہے۔ احناف اختلاف کرتے ہیں۔}
اس سے بھی واضح ہو گیا کہ توبہ پیش کرنے کے بعد مرتد کے اسلام سے انکار کرنے پر اس کا قتل واجب ہے۔ مرد مرتد کے قتل پر تو تمام حضرات ائمہ کرامؒ کا اجماع ہے۔ عورت مرتدہ کے بارے حضرات ائمہ ثلاثہؒ کا یہی مسلک ہے۔ البتہ احناف یہ کہتے ہیں کہ اس کو قتل نہ کیا جائے۔ کیونکہ صنف نازک ہونے کی وجہ سے عموماً وہ لڑائی اور جھگڑا ہاں اگر کوئی عورت لڑائی پر اتر آئے اور ارتداد کو پھیلانے کی سعی کرے تو اس کا معاملہ الگ اور جدا ہے۔
حضرت امام احمد بن حنبلؒ (المتوفی ۲۴۱ھ) کا مسلک امام موفق الدین ابن قدامہ الحنبلیؒ (المتوفی ۶۲۰ھ) یہ نقل کرتے ہیں: ’’الفصل الثالث انہ لا یقتل حتیٰ یستتاب عند اکثر اہل العلم منہم عمرو علی وعطاء ونخعی ومالک والثوری والا وزاعی واسحاق واصحاب الرائے وھو احد قولی الشافعی وروی عن احمد روایۃ اخریٰ انہ لا تجب اسستابتہ لکن تستحب وہذا القول الثانی للشافعی وھو قول عبید بن عمیر وطاؤس ویروی ذالک عن الحسن لقول النبیﷺ من بدل دینہ فاقتلوہ ولم یذکر استتابۃ (مغنی ج۸ ص۱۲۴)‘‘ {تیسری فصل اکثر اہل علم یہ کہتے ہیں کہ مرتد کو اس پر توبہ پیش کئے بغیر نہ قتل کیا جائے۔ جن میں حضرت عمرؓ، حضرت علیؓ، حضرت عطائؒ، امام نخعیؒ، امام مالکؒ، امام ثوریؒ، امام اوزاعیؒ، امام اسحاقؒ اور فقہاء احناف شامل ہیں اور حضرت امام شافعیؒ کا بھی ایک قول یہی ہے اور حضرت امام احمدؒ سے ایک دوسری روایت میں ہے کہ مرتد سے توبہ کا مطالبہ واجب نہیں ہے۔ لیکن مستحب ہے اور یہ امام شافعیؒ کا بھی ایک دوسرا قول ہے اور امام عبیدؒ بن عمیرؒ اور امام طاؤسؒ کا بھی یہی قول ہے اور حضرت حسن بصریؒ سے بھی یہ مروی ہے۔ کیونکہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے جو شخص اپنا دین (اسلام) بدل دے تو اسے قتل کر دواور