چلا جائے تو اسے قتل کیا جائے اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہ کیا جائے۔ امام ابویوسفؒ نے کتاب الاملا میں ایسا ہی فرمایا ہے کہ میں اسے قتل کر دوںگا اور اس سے توبہ کا مطالبہ نہیں کروںگا۔ ہاں اگر وہ میرے اقدام سے پہلے ہی توبہ کرے تو میں اسے چھوڑ دوںگا اور اس کا معاملہ اﷲتعالیٰ کے سپرد کردوںگا۔}
حضرت امام شافعیؒ (محمد بن ادریسؒ المتوفی ۲۰۴ھ) تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’ولم یختلف المسلمون انہ لا یحل ان یفادی بمرتد ولا یمن علیہ ولا تؤخذ منہ فدیۃ ولا یترک بحال حتی یسلم او یقتل واﷲ اعلم (کتاب الام ج۶ ص۱۵۲)‘‘ {مسلمانوں میں کسی کا اس بارے کبھی اختلاف نہیں ہوا۔ بلکہ سب کا اتفاق ہے کہ مرتد کا فدیہ میں دینا جائز نہیں اور نہ اس پر احسان کیا جائے اور نہ اس سے فدیہ لیا جائے اور اس کو ارتداد پر بھی نہیں چھوڑا جاسکتا۔ یہاں تک کہ وہ مسلمان ہو جائے یا قتل کیا جائے۔}
حضرت امام شافعیؒ کا یہ حوالہ قتل مرتد کے بارے بالکل واضح ہے۔
حضرت امام محی الدین ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی الشافعیؒ (المتوفی ۶۷۶ھ) لکھتے ہیں کہ: ’’وقد اجمعوا علیٰ قتلہ لکن اختلفوا فی استتابتہ ہل ھی واجبۃ ام مستحبۃ (نووی شرح مسلم ج۶ ص۴۵۴)‘‘ {تمام اہل اسلام کا قتل مرتد پر اجماع ہے۔ ہاں اس میں اختلاف ہے کہ مرتد پر توبہ پیش کرنا واجب ہے یا مستحب؟}
بعض آئمہ کرامؒ مرتد پر توبہ پیش کرنا واجب کہتے ہیں اور بعض مستحب کہتے ہیں۔
چنانچہ علامہ علاؤالدین بن علی بن عثمان الماردینی (المتوفی ۷۴۵ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’وقال صاحب الاستذ کار لا اعلم بین الصحابۃ خلافاً فی استتابۃ المرتد فکانہم فھمو من قولہ علیہ السلام من بدل دینہ فاقتلوہ ای بعد ان یستتاب (الجواہر النقی ج۸ ص۲۰۵)‘‘ {مصنف استذکار (شرح مؤطا امام مالک امام ابو عمر بن عبدالبرؒ المتوفی ۴۶۳ھ) فرماتے ہیں کہ مرتد پر توبہ پیش کرنے کے بارے میں مجھے حضرات صحابہ کرامؓ میں کوئی اختلاف معلوم نہیں ہے۔ پس گویا کہ حضرات صحابہ کرامؓ آنحضرتﷺ کے ارشاد من بدل دینہ فاقتلوہ سے یہی سمجھے ہیں کہ توبہ پیش کرنے کے بعد مرتد کو قتل کرنا چاہئے۔}
علامہ عزیزیؒ فرماتے ہیں: ’’فاقتلوہ بعد استتابۃ وجوباً قال المناوی وعمومہ یشمل الرجل وھو اجماع والمرأۃ وعلیہ الائمۃ الثلاثۃ خلافا للخفیۃ (السراج المنیر ج۳ ص۳۴۴)‘‘ {فاقتلوہ کا مطلب یہ ہے کہ مرتد سے توبہ کا مطالبہ کیا جائے۔