ایسا کوئی اور نہیں سمجھ سکتا اور ان میں سے بھی علی الخصوص حضرات ائمہ اربعہؒ جن کے مذاہب مشہور اور متد اوّل اور امت مسلمہ میں قابل اعتماد ہیں اور آج کل کے مادر پدر آزاد دور میں ملاحدہ اور زنادقہ کو جو اسلام کے مدعی تو ہیں۔ مگر اسلام کی سمجھ ہی ان کو نہیں اور نہ وہ اس کی روح سے واقف ہیں۔ وہ صرف اپنی نارسا عقل وخرد پر نازاں وفرحاں ہیں اور اسی کو وہ حرف آخر سمجھتے ہیں اور حضرات سلفؒ پر طعن کرتے ہیں۔ حضرت امام مالکؒ (المتوفی ۱۷۹ھ) اس حدیث پر یہ باب قائم کرتے ہیں۔
’’القضاء فیمن ارتد عن الاسلام، مالک عن زید بن اسلم ان رسول اﷲ ﷺ قال من غیر دینہ فضربوا عنقہ قال مالک ومعنیٰ قول النبیﷺ فیما نریٰ واﷲ تعالیٰ اعلم من غیر دینہ، فاضربوا عنقہ، انہ من خرج من الاسلام الیٰ غیرہ مثل الزنادقۃ واشبا عہم فان اولئک اذا ظہر علیہم قتلوا ولم یستتا بوالانہ لا یعرف توبتہم وانہم یسرون الکفر ویعلنون الاسلام فلا اریٰ ان یستتاب ھؤلا ولا یقبل منہم قولہم واما من خرج من الاسلام الیٰ غیرہ واظہر ذالک فانہ یستتاب فان تاب والا قتل ذلک لو ان قوماً کانوا علیٰ ذالک رایت ان یدعوا الیٰ الاسلام ویستتابو فان تابوا قبل ذلک منہم وان لم یتوبوا قتلوا ولم یعن بذلک فیما نری واﷲ اعلم من خرج من الیہودیۃ الیٰ النصرانیۃ ولا من النصرانیہ الیٰ الیہودیۃ ولا من یغیر دینہ من اہل الادیان کلہا الا الاسلام فمن خرج من الاسلام الیٰ غیرہ واظہر ذالک فذالک الذی عنی بہ واﷲ اعلم (مؤطا امام مالکؒ ص۳۰۸، طبع مجتبائی دہلی)‘‘ {اس شخص کے بارے فیصلہ جو اسلام سے پھر جائے۔ امام مالکؒ حضرت زیدؒ بن اسلمؒ سے روایت کرتے ہیں کہ آنحضرتﷺ نے فرمایا۔ جس شخص نے اپنا دین بدل دیا تو تم اس کی گردن اڑا دو۔ حضرت امام مالکؒ فرماتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے اس ارشاد کا ہماری دانست میں معنیٰ یہ ہے اور اﷲ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ جو شخص اسلام سے نکل کر زنادقہ وغیرہم میں جا ملا۔ ایسے زنادقہ پر جب مسلمانوں کا غلبہ ہو جائے تو ان سے تو بہ طلب کئے بغیر ان کو قتل کیا جائے۔ کیونکہ زنادقہ کی توبہ معلوم نہیں ہوسکتی۔ کیونکہ وہ کفر کو چھپاتے اور اسلام کو ظاہر کرتے ہیں اور ہماری دانست کے مطابق نہ تو ان سے توبہ طلب کی جائے اور نہ توبہ قبول کی جائے۔ باقی رہے وہ لوگ جو اسلام سے کفر کی طرف نکلے اور کفر کو ظاہر کیا تو ان پر توبہ پیش کی جائے گی اور اگر وہ توبہ کر لیں تو فبہا ورنہ ان کو قتل کیا