ص۳۸۲، سنن الکبریٰ ج۸ ص۱۹۴، ج۸ ص۲۰۲)‘‘ {جناب رسول اﷲﷺ نے فرمایا کہ کسی مسلمان کا جو اس بات کی گواہی دیتا ہو کہ اﷲتعالیٰ کے بغیر کوئی معبود نہیں اور اس کی کہ میں اﷲتعالیٰ کا رسول ہوں۔ خون بہانا جائز نہیں۔ مگر تین چیزوں میں سے کسی ایک کے ارتکاب سے شادی شدہ ہونے کے بعد زنا کرے۔ یا کسی کو قتل کردے تو اس کو قصاص میں قتل کیا جائے گا۔ یا اپنے دین (اسلام) کو چھوڑ کر ملت سے جدا ہوجائے تو قتل کیا جائے گا۔}
اس صحیح اور صریح حدیث میں اس کی وضاحت ہے کہ دین سے دین اسلام مراد ہے کہ جو مسلمان اپنے دین اسلام سے پھر کر مرتد ہو جائے تو وہ قابل گردن زدنی ہے اور اس جرم کی وجہ سے اسے قتل کیا جائے گا۔
۵… حضرت عائشہؓ (المتوفی ۵۸ھ) سے روایت ہے: ’’ان النبیﷺ قال من ارتد عن دینہ فاقتلوہ (مصنف عبدالرزاق ج۱۰ ص۱۱۴)‘‘ {آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اپنے دین (اسلام) سے پھر گیا تو اسے قتل کر دو۔}
۶… مشہور تابعی حضرت ابوقلابہؒ (عبداﷲ بن زید الجرمیؒ المتوفی ۱۰۴ھ) نے خلیفہ راشد حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز (المتوفی ۱۰۱ھ) کی بھری ہوئی عدالتی اور علمی مجلس میں یہ حدیث بیان فرمائی۔ ’’فو اﷲ ما قتل رسول اﷲﷺ احد اقط الا فی ثلاث رجل قتل بجریرۃ نفسہ فقتل اورجل زنی بعد احصان اورجل حارب اﷲ ورسولہ وارتد عن الاسلام (بخاری ج۲ ص۱۰۱۹، باب القسامۃ)‘‘ {بخدا آنحضرتﷺ نے کبھی بھی کسی کو قتل نہیں کیا۔ مگر تین جرائم میں وہ شخص جو ناحق کسی کو قتل کرتا تو اسے قصاص میں قتل کرتے یا شادی کے بعد زنا کرتا تو اسے قتل کرتے یا اسلام سے پھر کر مرتد ہو جاتا تو اسے قتل کرتے۔}
ایسی صحیح اور صریح احادیث کی موجودگی میں یہ موشگافیاں کہ یہ احادیث اسلام سے پھر کر مرتد ہو جانے والے کے بارے میں نہیں یا یہ احادیث ضعیف ہیں یا یہ احادیث کلمہ گو کے قتل سے خاموش ہیں۔ یا یہ صرف ان لوگوں کے بارے میں ہیں جو اسلام سے خارج ہوکر کھلے طور پر علانیہ کافر ہو جائیں وغیرہ وغیرہ۔ کسی مسلمان کا کام نہیں ہوسکتا۔ یہ کارروائی صرف وہی کر سکتا ہے جو ملحد وزندیق ہو۔
حضرات ائمہ دین
جس طرح قرآن وحدیث اور دین اسلام کی باریکیوں کو حضرات ائمہ دین سمجھتے ہیں۔