سے یہی سمجھتے ہیں کہ دین اسلام سے پھر جانے والے کا یہ حکم ہے اور حقیقت بھی یہی ہے کہ یہ حدیث مرتد عن الاسلام کے قتل کے متعلق ہے۔ نہ کہ ہندو سے عیسائی اور عیسائی سے یہودی وغیرہ ہو جانے کے بارے میں۔
ثانیاً… اس لئے کہ حضرت ابن عباسؓ ہی سے روایت ہے: ’’قال قال رسول اﷲﷺ من جحد آیۃ من القرآن فقد حل ضرب عنقہ (ابن ماجہ ص۱۸۵)‘‘ {آنحضرتﷺ نے فرمایا کہ جس شخص نے قرآن کریم کی کسی آیت (یا اس سے مطلوب معنی کا۔ صفدر) انکار کیا تو بلاشک اس کی گردن اڑا دینا حلال اور جائز ہے۔}
۱… اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ اگر کوئی شخص پورے قرآن کریم کو مانتا ہے۔ مگر اس کی کسی ایک آیت (یا اس کے مقصود معنی) کا انکار کرتا ہے تو وہ مرتد اور قابل قتل ہے۔ اس سے واضح ہوا کہ حدیث میں بدل دینہ، فاقتلوہ۔ اسلام سے پھر جانے والے کے بارے میں ہے نہ کہ کسی کافر کے اپنا دین چھوڑ کر کفر کے کسی اور دین کو اختیار کر لینے والے کے بارے میں۔
۲… حضرت ابوموسیٰ الاشعریؓ (عبداﷲ بن قیس المتوفی ۴۴ھ) کو آنحضرتﷺ نے یمن کے ایک صوبے کا گورنر بنا کر بھیجا۔ جب کہ حضرت معاذ بن جبلؓ کو ان کے بعد دوسرے صوبے کا گورنر بنا کر بھیجا۔ حضرت معاذؓ، حضرت ابوموسیٰ ؓکی ملاقات کے لئے گئے۔ حضرت ابوموسیٰؓ نے اکرام ضیف کی مد میں حضرت معاذؓ کے لئے تکیہ ڈالا اور حضرت معاذؓ ابھی تک سوار تھے۔ ’’واذا رجل عندہ مؤثق قال ما ہذا قال کان یہود یا فاسلم ثم تہود قال اجلس قال لا اجلس حتیٰ یقتل قضاء اﷲ وسولہ ثلاث مرأت فامر بہ فقتل (بخاری ج۲ ص۱۰۲۳، کتاب استتابۃ المعاندین والمرتدین وقتالہم باب حکم المرتدو المرتدہ، مختصراً ج۲ ص۱۰۵۹، مسلم ج۲ ص۱۲۱، باب النہی عن طلب الامارۃ والحرص، سنن الکبریٰ ج۸ ص۲۰۵)‘‘ {تو انہوں نے حضرت ابوموسیٰؓ کے پاس ایک شخص باندھا ہوا دیکھا۔ پوچھا کہ یہ کون ہے؟ حضرت ابوموسیٰ نے فرمایا کہ یہ پہلے یہودی تھا۔ پھر مسلمان ہوا۔ اس کے بعد پھر یہودی ہوگیا۔ فرمایا اے معاذؓ بیٹھ جاؤ۔ حضرت معاذؓ نے فرمایا کہ جب تک اس کو قتل نہیں کیا جائے گا۔ میں نہیں بیٹھوں گا۔ اﷲتعالیٰ اور اس کے رسول کا یہی فیصلہ ہے۔ تین دفعہ انہوں نے یہ فرمایا۔ پھر اس مرتد کے بارے میں قتل کا حکم دیا گیا اور وہ قتل کردیا گیا۔}