کے عذاب (آگ) سے کسی کو سزا نہ دو بلکہ میں ان کو قتل کر دیتا۔ جیسا کہ جناب رسول اﷲﷺ نے فرمایا ہے کہ جس نے اپنا دین (اسلام) بدل دیا تو اس کو قتل کر دو۔ ترمذی شریف کی روایت میں ہے کہ جب حضرت ابن عباسؓ کی یہ بات حضرت علیؓ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا کہ حضرت ابن عباسؓ نے سچ کہا ہے۔}
اور حضرت ابن عباسؓ کی ایک روایت یوں ہے: ’’عن ابن عباسؓ قال قال رسول اﷲﷺ من بدل دینہ فاقتلوہ (ابن ماجہ ص۱۸۲، واللفظ لہ ومسند احمد ج۱ ص۲۱۷، مسند حمیدی ج۱ ص۲۴۴، سنن الکبریٰ ج۸ ص۱۹۵، مشکوٰۃ ص۳۰۷، الجامع الصغیر ج۲ص۱۶۸، وقال صحیح والسراج المنیر ج۴ ص۲۷۹)‘‘ {حضرت ابن عباسؓ فرماتے ہیں کہ حضورﷺ نے فرمایا کہ جس نے اپنا دین (اسلام) بدل دیا تو اسے قتل کر دو۔}
اس صحیح حدیث سے مرتد کا قتل بالکل آشکارا ہے۔ جس میں کوئی شک نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ آنجہانی مسٹر غلام احمد پرویز کی طرح کسی کج فہم کو یہ شبہ ہو کہ اس حدیث میں من بدل دینہ فاقتلوہ کے عمومی الفاظ سے اسلام سے پھر جانے والے مرتد کا قتل ثابت اور متعین نہیں ہوتا۔ کیونکہ من بدل دینہ، میں الفاظ عام ہیں۔ مثلاً یہودی کا عیسائی ہو جانا یا عیسائی کا ہندو یا سکھ ہو جانا یا ہندو کا عیسائی اور یہودی وغیرہ ہو جانا۔ وغیر ذالک! تو اس سے اسلام سے پھر کر مرتد ہونے والے کا قتل کیسے متعین ہوا؟
الجواب
یہ شبہ نہایت ہی سطحی ذہن کی پیدا وار ہے جس کی کوئی قدر ومنزلت ہی نہیں ہے۔
اوّلاً… تو اس لئے کہ اسی حدیث میں یہ الفاظ موجود ہیں کہ: ’’ان علیا احرق ناساً ارتد واعن الاسلام (ابوداؤد ج۲ ص۲۴۲، ترمذی ج۱ ص۱۷۶، نسائی ج۲ ص۱۵۱)‘‘ {حضرت علیؓ نے ان لوگوں کو آگ میں جلایا تھا۔ جو اسلام سے پھر گئے تھے۔}
اس سے بالکل واضح ہوگیا کہ یہ کارروائی ان لوگوں کے بارے میں ہوئی جو اسلام کو چھوڑ کر مرتد ہوگئے تھے۔ وہ لوگ اسلام سے باایں طور پھرے کہ پہلے مسلمان تھے پھر مرتد ہوگئے۔ یا پہلے منافقانہ طور پر انہوں نے اسلام کا اظہار کیا۔ پھر کھلے طور پر کفر کی طرف پھر گئے۔ کوئی بھی معنی لیا جائے۔ یہ صحیح روایت اسلام سے پھر کر مرتد ہونے والوں کو قتل کئے جانے پر نص ہے اور حضرت علیؓ اور حضرت ابن عباسؓ آنحضرتﷺ کے ارشاد من بدل دینہ، فاقتلوہ