ہے۔ تاکہ یہ سمجھا جائے کہ یہ حکم بنی اسرائیل کے ساتھ مختص تھا جو اس کے مخاطب تھے۔ بلکہ ’’وکذالک نجزی المفترین‘‘ کے جملہ سے بھی ہے۔ جس میں اﷲتعالیٰ نے مرتدین کے بارے اپنی عادت جاری بیان فرمائی ہے کہ مرتدوں کو ایسی ہی سزا دیتے ہیں یادیں گے۔ کیونکہ نجزی مضارع کا صیغہ ہے۔ جس میں حال اور استقبال کا معنی پایا جاتا ہے تو اس میں اﷲتعالیٰ نے مرتدوں کی سزا کے بارے اپنی عادت جاریہ کا ذکر فرمایا ہے جو واضح ہے۔
ثانیاً… اصول فقہ کی کتابوں میں تصریح موجود ہے کہ: ’’وشرائع من قبلنا تلزمنا اذا قص اﷲ ورسولہ من غیر نکیر (نور الانوار ص۲۱۶)‘‘ {ہم سے پہلے کی شریعتوں کے احکام جب اﷲ تعالیٰ اور اس کے رسول نے بیان کئے ہوں اور ان پر نکیرنہ کی ہو تو وہ ہم پر بھی لازم ہیں۔}
اور قتل مرتد کی اﷲتعالیٰ نے ’’وکذلک نجزی المفترین‘‘ میں تائید کی ہے، نہ کہ تردید اور اسی طرح آنحضرتﷺ کی صحیح احادیث قتل مرتد کی تائید کرتی ہیں۔ نہ کہ نکیرو تردید، تو قرآن کریم کی نص قطعی سے مرتد کی سزا قتل ثابت ہوئی۔جس میں کسی کا کوئی شبہ تردد نہیں ہے۔ البتہ لا نسلم کا دنیا میں کوئی علاج نہیں ہے۔
مسلمانوں کو منکروں کے انکار کو خاطر میں نہیں لانا چاہئے اور حق کے میدان میں بلاخطر چلنا چاہئے ؎
میدان میں گرجتا ہوا شیروں کی طرح چل
تو شیر ہے دشمن کے کلیجے کو ہلا دے
احادیث
۱… حضرت عکرمہؒ (المتوفی ۱۰۷ھ) سے روایت ہے کہ: ’’ان علیاؓ حرق قوماً فبلغ ابن عباسؓ فقال لوکنت انا،لم احرقہم لان النبیﷺ قال لا تعذبوا بعذاب اﷲ ولقتلتہم کما قال النبیﷺ من بدل دینہ فاقتلوہ (بخاری ج۱ ص۴۲۳، باب لا یعذب بعذاب اﷲ، ج۲ ص۱۰۲۳، باب حکم المرتد، ترمذی ج۲ ص۱۵۱، فیہ فبلغ ذالک علیاؓ فقال صدق ابن عباسؓ وقال ہذا حدیث حسن صحیح وداؤد ج۲ ص۲۴۲، نسائی ج۲ ص۱۵۱، مشکوٰۃ ص۳۰۷، سنن الکبریٰ ج۸ ص۱۹۵)‘‘ {حضرت علیؓ نے کچھ لوگوں کو آگ میں جلادیا۔ یہ خبر جب حضرت ابن عباسؓ کو پہنچی تو انہوں نے فرمایا کہ اگر میں ہوتا تو میں ان کو آگ میں نہ جلاتا۔ کیونکہ آنحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ اﷲتعالیٰ