سنگسار کئے جانے پر مرزاغلام احمد قادیانی اور لاہوری پارٹی کے سربراہ مسٹر محمد علی لاہوری اور ان کے چیلوں نے ہندوستان میں خوب واویلا مچایا اور اخبارات ورسائل میں اس پر بڑی لے دے کی۔ اس دور میں حضرت مولانا شبیر احمد عثمانیؒ (المتوفی ۱۳۶۹ھ بعمر ۶۴سال ایک ماہ بارہ دن) نے علماء افغانستان کے فتویٰ کے درست ہونے اور نعمت اﷲ کے ارتداد کی وجہ سے قتل کئے جانے کو قرآن کریم صحیح احادیث اور فقہاء ملت کے صریح فتوؤں سے جائز ثابت کیا اور اس پر انہوں نے علمی رسالہ تصنیف فرمایا۔ جس کا نام ’’الشہاب لرجم الخاطف المرتاب‘‘ تجویز فرمایا۔
یہ رسالہ ۱۸؍ربیع الاوّل ۱۳۴۳ھ میں تحریر کیاگیا۔ اس رسالہ کو سرظفر اﷲ خاں مرتد کی کوشش سے جو بدقسمتی سے اس وقت پاکستان کا وزیرخارجہ تھا اور اسی کی وجہ سے ابتداء میں پاکستان کے تعلقات حکومت افغانستان سے خاصے کشیدہ رہے۔ بلکہ خراب کئے گئے۔ پاکستان میں خلاف قانون قرار دے دیا گیا۔ حالانکہ حضرت مولانا عثمانیؒ پاکستان کے شیخ الاسلام تھے۔ مگر کچھ نہ کیا جاسکا اور یہ رسالہ ضبط کر لیا گیا۔ اس رسالہ میں حضرت مولانا عثمانیؒ نے مرزاغلام احمد قادیانی کے صریح حوالوں سے اس کے ادّعائے نبوت کا اور تمام اہل اسلام کے ہاں ختم نبوت کے قطعی عقیدہ کی مرزاقادیانی کی طرف سے بے جا اور باطل تاویلات اور تحریفات کا ذکر کر کے اس کا ملحد وزندیق ہونا اور قرآن وحدیث اور فقہ اسلامی سے مرتد کا واجب القتل ہونا ثابت کیا ہے۔
چنانچہ مولانا عثمانیؒ فرماتے ہیں: ’’اس تمام تقریر سے یہ نتیجہ نکلا کہ مرزاغلام احمد قادیانی جس کی ختم نبوت کو رد کرنے والی تصریحات ہم نقل کر چکے ہیں۔ اسلام کے قطعی عقیدہ کو تسلیم نہ کرنے کی وجہ سے مرتد اور زندیق ہے اور جو جماعت ان تصریحات پر مطلع ہو کر ان کو صادق سمجھتی رہے اور ان کی حمایت میں لڑتی رہے وہ بھی یقینا مرتد اور زندیق ہے۔ خواہ وہ قادیان میں سکونت رکھتی ہو یا لاہور میں۔ جب تک وہ ان تصریحات کے غلط اور باطل ہونے کا اعلان نہ کرے گی خدا کے عذاب سے خلاص پانے کی اس کے لئے کوئی سبیل نہیں۔‘‘ (الشہاب ص۱۰، طبع دیوبند)
اس سے صاف طور پر واضح ہوگیا کہ پاکستان کے شیخ الاسلام کے نزدیک مرزائیوں کی دونوں پارٹیاں قادیانی اور لاہوری مرتد اور زندیق ہیں اور قتل کے بارے میں وہ یہ حوالہ نقل کرتے ہیں کہ: ’’وقد اتفق الائمۃ علیٰ ان من ارتد عن الاسلام وجب قتلہ وعلیٰ ان قتل الزندیق واجب وہوالذی یسر الکفر ویتظاہر بالاسلام (المیزان الکبریٰ ج۲ ص۱۶۵، بعبد الوہاب شعرانیؒ)‘‘ {بلاشبہ تمام حضرات ائمہ کرامؒ کا اس پر اتفاق ہے کہ جو شخص اسلام سے پھر جائے اس کا قتل کرنا واجب ہے اور اس پر بھی ان کا اجماع ہے کہ زندیق کا قتل