بھی کفر ہے اور ایسے مقام پر عمدہ سے عمدہ اور خوبصورت سے خوبصورت تاویل بھی کفر سے نہیں بچا سکتی۔ حقیقت کو واضح کرنے کے لئے چند حوالے عرض کئے جاتے ہیں۔ ملاحظہ فرمائیں:
۱… علامہ محقق الحافظ محمد بن ابراہیم الوزیرالیمانیؒ (المتوفی ۷۷۰ھ) لکھتے ہیں: ’’لان الکفر ھو جحد الضروریات من الدین اوتأویلہا (ایثار الحق علی الخلق ص۲۴۱)‘‘ {ضروریات دین کا انکار اور ان کی تاویل کفر ہے۔}
اور نیز تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’مذہب الاکثرین من الائمۃ وجماھیر علماء الامۃ وھو التفصیل والقول بان التاویل فی القطعیات لا یمنع الکفر (اتحاف ج۲ ص۱۳)‘‘ {اکثر آئمہ اور جمہور علماء امت کے مذہب میں قول مفصل یہ ہے کہ قطعیات (اور ضروریات دین) میں تاویل کفر سے نہیں بچاتی۔}
۲… مشہور متکلم علامہ شمس الدین احمد بن موسیٰ الخیالیؒ (المتوفی ۸۷۰ھ) اور علامہ عبدالحکیم سیالکوٹیؒ (المتوفی ۱۰۷۰ھ) لکھتے ہیں۔ واللفظ لہ: ’’التأویل فی ضروریات الدین لا یدفع الکفر (الخیالی ص۱۴۶ مع حاشیہ فاضل سیالکوٹیؒ)‘‘ {ضروریات دین میں تأویل کفر سے نہیں بچاتی۔}
۳… حضرت شاہ ولی اﷲ صاحبؒ فرماتے ہیں کہ: ’’ثم التأویل تأویلان تأویل لا یخاف قاطعاً من الکتاب والسنۃ واتفاق الامۃ وتأویل یصادم ماثبت بالقاطع فذالک الزندقہ (مسوی ج۱ ص۱۰۹)‘‘ {تاویل کی دو قسمیں ہیں۔ ایک تاویل وہ ہے جو کتاب وسنت اور اتفاق امت کے قطعی دلائل کے مخالف نہ ہو اور دوسری تاویل وہ ہے جو اس چیز سے متصادم ہو جو قطعی طور پر ثابت ہے۔ ایسی تاویل زندقہ ہے۔}
حافظ ابن الہمام محمدؒ بن عبدالواحد (المتوفی ۸۶۱ھ) لکھتے ہیں کہ: ’’الاتفاق علیٰ ان ماکان من اصول الدین وضروریاتہ یکفر الخالف فیہ (مسائرہ ج۲ ص۲۱۲، طبع مصر)‘‘ {اس پر اتفاق ہے کہ اصول دین اور ضروریات دین کی جو شخص مخالفت کرتا ہے تو اس کی تکفیر کی جائے گی۔}
اور علامہ ابن عابدین الشامیؒ (المتوفی ۱۲۵۲ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’لا خلاف فی کفر المخالف فی ضروریات الاسلام وان کان من اہل القبلۃ المواظب طول عمرہ علی الطاعات کما فی شرح التحریر (رد المختار ج۱ ص۳۷۷)‘‘ {حضرات فقہاء کرامؒ کا اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو شخص ضروریات اسلام کا منکر ہو وہ کافر ہے۔