الف… ’’اور بیضاء کے معنی سفید یا روشن اور الید البیضاء کے معنی ہیں۔ ’’الحجۃ المبرہنۃ‘‘ یعنی روشن یا واضح دلیل۔‘‘ (بیان القرآن ج۱ ص۵۲۷)
ب… ’’حضرت موسیٰ علیہ السلام کے سونٹے (لاٹھی) میں یہ خاصیت نہ تھی کہ جب زمین پر ڈالیں تو اژدھا بن جائے نہ ہی سوائے ان دونوں موقعوں کے اور کبھی دشمن کے بالمقابل بھی اس کے اژدھا بننے کا ذکر ہے۔ وہ ایک معمولی سونٹا تھا۔ جیسا کہ خود حضرت موسیٰ علیہ السلام کے الفاظ ہیں کہ میں اس پر ٹیک لگاتا ہوں اور بکریوں کے لئے اس سے پتے جھاڑتا ہوں اور کام بھی لے لیتا ہوں۔‘‘ (بیان القرآن ج۱ ص۵۲۷)
ج… ’’ہاں عصاء کے اژدھا بننے اور یدبیضاء کے ایک معنی بھی تھے۔ یعنی اوّل یہ اشارہ تھا کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پیرووں کی جماعت (کیونکہ عصا کا لفظ جماعت پر بھی بولا گیا ہے) اپنے فریق مخالف پر غالب آئے گی اور یدبیضاء میں اشارہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کی دلائل نیرہ کی طرف تھا جو دلوں کو کھا جائے گی۔ چنانچہ فرعونیوں کا غرق ہونا اور ساحروں کا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر ایمان لانا ان دونوں معجزوں کی اصل حقیقت پر شاہد ہے۔‘‘
(بیان القرآن ج۱ ص۵۲۸)
اگر عصاء اور یدبیضاء کی یہی مراد ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو روشن دلائل مرحمت ہوئے تھے اور بالآخر ان کی جماعت فریق مخالف پر غالب آگئی تو اس طرح کے روشن دلائل اور غلبہ تو دوسرے حضرات انبیاء کو علیہم الصلوٰۃ والسلام کو بھی عطاء ہوئے تھے تو پھر ا س میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی تخصیص کی کیا وجہ ہے کہ یہ دونوں معجزے حضرت موسیٰ علیہ السلام کو مرحمت ہوئے؟ اب جناب مودودی صاحب سے سوال ہے کہ قرآن کریم کی ایسی صریح تحریف کرنے والے کا کیا حکم ہے؟ اور مسلمان اسے کیا سمجھیں؟
۵… قرآن کریم میں تصریح موجود ہے اور یہ معنی اور مراد آج تک تمام مسلمان مفسرین بیان کرتے چلے آئے ہیں کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مردوں کے زندہ کرنے اور مادر زاد اندھوں کو بینا کردینے اور پھلبہری والوں کو تندرست کرنے اور مٹی کی چڑیاں بنا کر ان میں پھونکنے سے سچ مچ چڑیاں بن کر اڑ جانے کے معجزات عطاء فرمائے تھے اور ایک ایک جملہ کے ساتھ باذن اﷲ کے الفاظ بھی موجود ہیں۔ یعنی ان میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا کوئی دخل نہ تھا۔ یہ سب کچھ اﷲتعالیٰ کے حکم سے ہوا۔ مگر ہوا ضرور ہے۔ لیکن مولوی محمد علی لاہوری کہتے ہیں