دوزخ میں ہی بھرے رہیںگے۔ کسی طرح بھی درست نہیں۔ جہنم کے دروازے بند ہو جانا۔ اس میں کسی کا نہ رہنا سب کا ایک دن نکل آنا یہ صاف بتاتا ہے کہ جہنم سے آخر کار سب نکال دئیے جائیںگے۔‘‘ (بیان القرآن ج۱ ص۶۶۸)
علاوہ ازیں مولوی محمد علی لاہوری کا یہ غلط نظریہ بھی ہے کہ دوزخ میں جو عذاب ہوتا ہے وہ اصلاح اور علاج کے لئے ہے۔ صرف سزا نہیں۔ چنانچہ لکھتے ہیں کہ: ’’اس لئے دوزخ کا عذاب بھی انسان کی اصلاح کے لئے اور بطور علاج ہی ہوسکتا ہے۔ نہ صرف بطور سزا۔‘‘
(بیان القرآن ج۱ ص۵۲۵)
اس کو کہتے ہیں۔ ’’یک نہ شد دو شد‘‘ گویا کافروں اور مشرکوں کو دوزخ میں جو عذاب ہوگا وہ محض سزا اور عذاب کے طور پر نہیں بلکہ علاج واصلاح کے طور پر ہوگا اور وہ بھی ابدی اور دائمی طور پر نہیں بلکہ کچھ عرصہ تک ہوگا اور آخر میں اس سے وہ بھی نکال دئیے جائیںگے۔ گویا ’’خالدین فیہا ابداً‘‘ اور ’’ذوقوا فلن نزید کم الا عذاباً (نبا:۳۰)‘‘ (بیان القرآن ص۱۴۳) کا ان کے نزدیک کوئی معنی ہی نہیں۔ اب سوال یہ ہے کہ مولوی محمد علی لاہوری کے بارے میں مسلمان کیا سمجھیں؟ اور جناب مودودی صاحب ان کے بارے میں کیوں تأمل کر رہے ہیں؟ کیا اس کا یہ نتیجہ نہ ہوگا کہ عام مسلمان یہ سمجھنے لگیں گے کہ جو نظریات لاہوری جماعت کا سربراہ پیش کر رہا ہے وہ سب صحیح ہیں یا کم ازکم ایسے ہیں کہ ان کی وجہ سے ان کو کافر نہیں کہا جاسکتا؟ معلوم نہیں کہ جب نصوص قطعیہ کا انکار اور ان کی تاویل بھی کفر نہیں تو آخر کفر کس بلا کا نام ہے؟ کیا کافر کے سر پر مینڈھے اور بھینس کی طرح لمبے لمبے سینگ ہوتے ہیں۔ جس سے اس کی شناخت کی جاسکے؟
۴… قرآن کریم میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کے نو معجزات کا ذکر ہے۔ جن میں ایک عصا اور دوسرا ید بیضاء ہے اور قرآن کریم سے یہ ثابت ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام جب اپنی لاٹھی کو زمین پر پھینکتے تو وہ اﷲتعالیٰ کے حکم سے اژدھا بن جاتی اور پھر اس کو پکڑتے تو وہ بدستور لاٹھی ہو جاتی اور جب وہ اپنے گریبان میں ہاتھ ڈالتے تو باذن اﷲ تعالیٰ وہ سفید اور چمکدار ہو جاتا اور یہی معنی آج تک مسلمان سمجھتے آئے ہیں۔ لیکن مولوی محمد علی لاہوری ید کے معنی اس مقام پر ہاتھ کے نہیں بلکہ دلیل اور حجت کے کرتے ہیں اور عصاء کے معنی لاٹھی کے نہیں بلکہ جماعت کے کرتے ہیں اور مطلب یہ لیتے ہیں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو واضح دلیل دی گئی تھی اور ان کی جماعت دشمن پر غالب آگئی تھی۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ: