کہ ان مذکورہ بیماریوں سے جسمانی بیماریاں مراد نہیں بلکہ روحانی بیماریاں مراد ہیں اور پرندوں سے انسان مراد ہیں۔ جو عالم روحانیت میں پرواز کرتے ہیں۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:
الف… ’’حضرت مسیح علیہ السلام کے کلام میں بیماریوں سے مراد روحانی بیماریاں ہیں۔ حضرت مسیح علیہ السلام کا معمولی بیماریوں کا علاج کرنا ان کی نبوت کے متعلق کوئی خاص امر نہیں۔ حالانکہ یہاں نشان کے طور پر اس کا ذکر کیاگیا ہے۔‘‘ (بیان القرآن ج۱ ص۲۱۹)
ب… ’’مردوں کا اس دنیا میں واپس آنا بروئے تصریح قرآنی ممنوع ہے۔‘‘
(بیان القرآن ج۱ ص۲۱۹)
اور پھر اس پر ’’فیمسک التی قضیٰ علیہا الموت (الزمر:۴۲)‘‘ سے استدلال کیا ہے۔ ان کا اس آیت کریمہ سے بطور معجزہ اور خرق عادت کے طور پر بعض مردوں کا زندہ ہونے پر استدلال صحیح ہے یا غلط؟ بحث اس سے نہیں، بتانا صرف یہ ہے کہ مولوی محمد علی لاہوری حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے احیاء موتیٰ کے قرآنی معجزہ کے منکر ہیں۔
ج… ’’جن لوگوں کا خیال ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سچ مچ قبروں سے مردے نکال کر زندہ کر دیا کرتے تھے اور مٹی کی شکلیں بنا کر ان کو سچ مچ کے پرندے بنادیتے تھے۔ ان کے لئے بھی یہاں سبق ہے کہ اگر ایسے کھلے معجزات ہوئے ہوتے تو حواری حضرت مسیح علیہ السلام کو سچا جاننے کے لئے ایک مائدہ کے اترنے کے کیوں محتاج ہوتے۔ قبروں سے مردوں کا نکل آنا اور مٹی کی شکلوں کا پرندہ بن جانا تو مائدہ کے اترنے سے بہت کھلے معجزے ہیں۔ جو لوگ یہ دیکھ چکے ہوں وہ مائدہ کے محتاج نہیں ہوسکتے۔ پس کم ازکم قرآن کے نزدیک مردوں کے نکالنے وغیرہ معجزات سے ظاہری معنی ہرگز مراد نہیں۔‘‘ (بیان القرآن ج۱ ص۴۵۱)
د… ’’پس برنگ استعارہ یہاں طیر سے مراد ایسے لوگ ہیں جو زمین اور زمینی چیزوں سے اوپر اٹھ کر خدا کی طرف پرواز کر سکیں اور یہ بات آسانی سے سمجھ میں بھی آسکتی ہے کہ جس طرح نبی کے نفخ (یعنی وعظ وپند، صفدر) سے انسان اس قابل ہو جاتا ہے کہ وہ زمینی خیالات کو ترک کر کے عالم روحانیت میں پرواز کرے۔‘‘ (بیان القرآن ج۱ ص۲۱۸)
یہ ہے خیر سے مولوی محمد علی لاہوری کے نزدیک ’’فیکون طیراً باذن اﷲ‘‘ کا معنی کہ معاذ اﷲ انسان نبی کی تعلیم سے متأثر ہوکر تکھرّ اور پرندہ بن جاتا ہے۔ ملاحظہ کیجئے کہ (معاذ اﷲ) کس طرح قرآن کریم میں بیان کردہ معجزات کا حلیہ بگاڑ کر کچھ کا کچھ کر دیا گیا ہے۔ مودودی