اس اعتراض اور پروپیگنڈے کا خدشہ پیش نظر تھا۔ اس لئے آپ اس نکاح سے گھبراتے تھے۔ اس موقع پر اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ حضرت محمدﷺ تمہارے مردوں میں سے کسی کے (جسمانی) باپ نہیں۔ نہ حضرت زیدؓ کے اور نہ کسی اور کے۔ ہاں روحانی ابوت وازواجہ امہاتہم کی نص سے۔ کیونکہ جب حضرات ازواج مطہراتؓ مومنوں کی روحانی مائیں ہیں تو لازماً آپﷺ ان کے باپ ہیں۔ اور حدیث ’’انما انالکم مثل الوالد (نسائی ج۱ص۷)‘‘ سے ثابت ہے تو جب آپؐ حضرت زیدؓ وغیرہ مردوں میںسے کسی کے باپ نہیں۔ تو بعد از عدت ان کی بیوی سے نکاح کیوں ناجائز ٹھہرا؟۔ یہ یاد رہے کہ آنحضرتﷺ کی صاحبزادیاں چار تھیں۔ جن کا وجود صحیح احادیث اور کتب تاریخ سے ثابت ہے۔ تاریخی طور پر اس میں کوئی اختلاف نہیں۔ جن کے نام حضرت زینبؓ، حضرت رقیہؓ، حضرت ام کلثومؓ اور حضرت فاطمہؓ تھے اور دو فرزند بھی قطعاً اور یقینا تھے۔ حضرت قاسمؓ اور حضرت ابراہیمؓ۔ کتب احادیث اور تاریخ سے اس کا واضح ثبوت ہے۔ مگر یہ دونوں بچپن ہی میں وفات پاگئے تھے۔ ان میں سے کوئی بھی رجل اور مرد نہیں ہوا۔ ان کے علاوہ آپ کے ایک اور فرزند بھی تھے۔ جن کا نام عبداﷲ تھا۔ ان کو طیب اور طاہر بھی کہا جاتا تھا۔ (مجمع الزوائد ج۹ص۲۱۷ وقال رواہ الطبرانی ورواتہ ثقات) مگر وہ بھی بچپن ہی میں وفات پاگئے تھے۔ لہٰذا آپ کی نرینہ بالغ اولاد کوئی نہ تھی۔ صاحبزادیاں ہی تھیں۔
اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے یہ واضح کردیا ہے کہ آنحضرتﷺ جب کسی مرد کے جسمانی باپ نہیں تو پھر حضرت زیدؓ کی مطلقہ بی بی بہو ہونے کے لحاظ سے آپ پر کیسے اور کیونکر حرام ہوگی۔ باقی رہے دور جاہلیت کے غلط نظریات تو اﷲ تعالیٰ نے آپؐ کو ان کے مٹانے اور بیخ وبن سے اکھاڑ پھینکنے کے لئے ہی مبعوث کیا ہے۔ جن کا مٹانا آپؐ کے فرض منصبی میں شامل ہے۔
اس آیت کریمہ میں اﷲ تعالیٰ نے یہ بھی آشکارا کردیا ہے کہ آپؐ اﷲ تعالیٰ کے رسولوں یعنی امت کے روحانی باپ ہیں اور خاتم النبیین ہیں کہ آپؐ کی آمد پر انبیائے کرام علیہم السلام کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ اکثر علماء عربیت کی اصطلاح کے مطابق لفظ رسول اور نبی کا مصداق اور مآل ایک ہی ہے۔ یعنی اﷲ تعالیٰ کے احکام مخلوق خدا کو پہنچانے والا اور ان کو خدائی خبریں سنانے والا۔ رسول کا مادہ رسالت ہے۔ یعنی پیغام رسانی اور نبی کا مجرد مادہ نباء ہے۔ جس کے معنی خبر دینا اور ظہور کے ہیں۔ کیونکہ نبی اﷲ تعالیٰ سے حکم پاکر مخلوق کو بھی خبر دیتا ہے اور دلائل ومعجزات کے اعتبار سے ان کی نبوت ظاہر بھی ہوتی ہے اور اس کا مجرد مادہ نبئاۃ بھی بیان کیا گیا ہے۔ جس کے معنی الصوت الخفی کے ہیں۔ چونکہ وحی لانے والا فرشتہ ان سے آہستہ گفتگو کرتا ہے اور وہ بھی اس سے مخفی