اب خود مرزاقادیانی کے اپنے چند حوالے ملاحظہ ہوں۔
۱… ’’یہ بات پوشیدہ نہیں کہ مسیح ابن مریم کے آنے کی پیش گوئی ایک اوّل درجہ کی پیش گوئی ہے۔ جس کو سب نے باتفاق قبول کر لیا ہے اور جس قدر صحاح میں پیش گوئیاں لکھی گئی ہیں۔ کوئی پیش گوئی اس کے ہم پہلو اور ہم وزن ثابت نہیں ہوتی۔ تواتر کا اوّل درجہ اس کا حاصل ہے۔ انجیل بھی اس کی مصدق ہے۔ اب اس قدر ثبوت پر پانی پھیرنا اور یہ کہنا کہ یہ تمام حدیثیں موضوع ہیں۔ درحقیقت ان لوگوں کا کام ہے۔ جن کو خداتعالیٰ نے بصیرت دینی اور حق شناسی سے کچھ بھی بخرہ اور حصہ نہیں دیا اور بباعث اس کے کہ ان لوگوں کے دلوں میں قال اﷲ اور قال الرسول کی عظمت باقی نہیں رہی۔ اس لئے جو بات ان کی اپنی سمجھ سے بالاتر ہو اس کو محالات اور ممتنعات میں داخل کر لیتے ہیں۔‘‘ (ازالہ اوہام ص۵۵۷، خزائن ج۳ ص۴۰۰)
قارئین کرام! بار بار اور غور سے اس حوالہ کو پڑھیں۔
۲… ’’اگر یہ کہو کہ کیوں جائز نہیں کہ یہ تمام حدیثیں موضوع ہوں اور آنے والا کوئی بھی نہ ہو تو میں کہتا ہوں کہ ایسا خیال ہی سراسر ظلم ہے۔ کیونکہ یہ حدیثیں ایسے تواتر کی حد تک پہنچ گئی ہیں کہ عند العقل ان کا کذب محال ہے اور ایسے متواتر بدیہات کے رنگ میں ہوجاتے ہیں۔‘‘ (ایام الصلح ص۴۸، خزائن ج۱۴ ص۲۷۹)
قائین کرام! اس حوالے کو بھی بنظر غائر دیکھیں کہ مرزاقادیانی نے کیا کہا؟ بدیہات کا انکار تو صرف پاگل ہی کر سکتے۔ کوئی عقل والا کسی بدیہی کا کبھی بھی انکار نہیں کرتا اور نہ کر سکتا ہے۔
۳… ’’اور جب حضرت مسیح (علیہ السلام) دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے تو ان کے ہاتھ سے اسلام جمیع آفاق اطراف میں پھیل جائے گا۔‘‘
(براہین احمدیہ ص۴۹۸،۴۹۹، خزائن ج ص۵۹۳)
اور یہی کچھ احادیث متواترہ اور امت مسلمہ کے اتفاق واجماع سے ثابت ہے۔ جیسا کہ قارئین کرام پوری تفصیل سے یہ پڑھ چکے ہیں۔
نوٹ: یہ حوالہ براہین احمدیہ کا ہے اور مرزاقادیانی خود براہین احمدیہ کے بارے لکھتا ہے۔ مؤلف نے ملہم ہوکر بغرض اصلاح تالیف کی اور یہ کتا ب آنحضرتﷺ کے دربار میں رجسٹری ہوچکی ہے۔ آپؐ نے اس کا نام قطبی رکھا ہے۔ قطب ستارہ کی طرح مستحکم اور غیر متزلزل