وثالثا… اس لئے کہ مرزاغلام احمد قادیانی کو بھی اس کا اقرار ہے کہ اس مقام میں لفظ توفی قطعی اور یقینی طور پر وفات ہی کے معنی میں مستعمل نہیں بلکہ یہاں اس کا معنی بچانا اور پورا پورا لینا ہے۔ مرزاقادیانی کے اپنے حوالے ملاحظہ کریں۔
۱… ’’یہودیوں نے حضرت مسیح علیہ السلام کے صلیب کا سوچا تھا… مگر خداتعالیٰ نے مسیح علیہ السلام کو وعدہ دیا کہ تجھے بچاؤں گا اور تیرا اپنی طرف رفع کروں گا۔‘‘
(اربعین نمبر۳ ص۸، خزائن ج۱۷ ص۳۹۴)
اس حوالہ سے معلوم ہوا کہ مرزاقادیانی نے بھی ’’متوفیک‘‘ کا معنی میں تجھے بچاؤں گا کیا ہے۔ جیسے اہل اسلام کرتے ہیں۔
۲… ’’میں تجھ کو پوری نعمت دوںگا اور اپنی طرف اٹھالوں گا۔‘‘
(براہین احمدیہ حاشیہ ص۵۱۹، خزائن ج۱ ص۶۲۰ حاشیہ در حاشیہ)
اور یہ نعمت اس طرح پوری ہوئی کہ یہود مردود نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کرنے اور سولی پر لٹکانے کا عزم کیا۔ مگر اﷲتعالیٰ نے اپنی قدرت کاملہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ان کے بدارادہ سے بچایا اور یہ نعمت کی کہ ان کو زندہ آسمان پر اٹھالیا اور اپنی پوری نعمت سے ان کو نوازا۔ اگر یہ کہا جائے کہ اﷲتعالیٰ نے یہود بے بہبود کو تو اس کی ہمت ہی نہیں دی کہ وہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر سکیں یا سولی پر لٹکا سکیں اور یہود کے ظالمانہ پنجہ سے ان کو محفوظ رکھا۔ مگر اﷲتعالیٰ نے خود ہی طبعی طور پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو وفات دے کر ان کی روح کو آسمان پر اٹھالیا تو یہ ایک نہایت ہی ضعیف نکمی اور لا یعنی بات ہوگی۔ اس لئے کہ اس صورت میں اﷲتعالیٰ نے خود یہود کی آرزو اور مراد پوری کر دی۔ کیونکہ آخر یہود بھی یہی چاہتے تھے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر کے یا سولی پر لٹکا ان کی زندگی ختم کر دی جائے۔ تاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی ان کے اختراعی عقائد اور بدعات پر سخت تنقید سے وہ بچ جائیں اور ان کے حلوے مانڈے پر اور مذہبی رنگ میں عوام کے اموال کو باطل طریقہ سے ہڑپ کرنے کی رسموں پر زد نہ پڑے تو اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طبعی طور پر وفات تسلیم کر لی جائے تو صرف اتنا ہوگا کہ اﷲتعالیٰ نے یہود کے ہاتھوں انہیں قتل ہونے اور سولی پر لٹکانے سے محفوظ رکھا۔ مگر از خود ہی ان کو وفات دے کر یہود کا مطلب پورا کر دیا۔ اس میں ان پر اﷲتعالیٰ کی کون سی تدبیر اور کون سے پوری نعمت ہوئی؟ اور واﷲ خیر الماکرین کا کیا مفہوم رہا؟ غرضیکہ وفات دے کر رفع کرنے میں کوئی نعمت نہیں۔ چہ جائیکہ پوری نعمت ہو۔