ارشاد کے ’’انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘ کے بارے میں یہ فرماتے ہیں کہ اس میں تقدیم وتاخیر ہے۔ کیونکہ حرف واوترتیب کو نہیں چاہتا اور معنی یہ ہے کہ اب میں تجھے اپنی طرف اٹھاتا ہوں اور کافروں سے تجھے پاک کرتا ہوں اور پھر آسمان سے نازل ہونے کے بعد میں تجھے وفات دوں گا۔
۳… علامہ آلوسیؒ فرماتے ہیں کہ: ’’عن قتادۃ قال ہذا من المقدم والمؤخر ای رافعک الیّٰ ومتوفیک (روح المعانی ج۳ ص۱۷۹)‘‘ {حضرت قتادہؒ (المتوفی۱۱۸ھ) فرماتے ہیں کہ اس میں تقدیم وتاخیر ہے۔ یعنی (پہلے) میں تجھے اپنی طرف اٹھاتا ہوں اور (پھر بعد کو) وفات دوںگا۔}
۴… امام ابن جریر الطبریؒ آیت کریمہ ’’انی متوفیک ورافعک الیّٰ‘‘ کی تفسیر میں متعدد اقوال نقل کرتے ہیں اور اس میں یہ بھی تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’وقال آخرون معنی ذلک اذ قال اﷲ یعیسیٰ انی رافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا ومتوفیک بعد انزالی ایاک الیٰ الدنیا وقال وہذا من المقدم الذی معناہ التاخیر والمؤخر الذی معناہ التقدیم قال ابوجعفر و اولی ہذہ الاقوال بالصحۃ عندنا قول من قال معنی ذالک انی قابضک من الارض ورافعک الیّٰ لتواتر الاخبار عن رسول اﷲﷺ انہ قال ینزل عیسیٰ بن مریم فیقتل الدجال (تفسیر ابن جریر ج۳ ص۲۹۱)‘‘ {اور دوسرے حضرات ’’واذ قال اﷲ‘‘ کا مطلب یہ بیان کرتے ہیں کہ بے شک میں اب تجھے اپنی طرف اٹھاتا ہوں اور تجھے کافروں سے پاک کرتا ہوں اور میں تجھے زمین پر نازل کرنے کے بعد وفات دوںگا اور متوفیک کا جملہ گو لفظاً مقدم ہے۔ مگر اس کا معنی موخر ہے اور ’’ورافعک الیّٰ‘‘ اگرچہ لفظاً موخر ہے۔ لیکن معنی میں مقدم ہے (کہ پہلے رفع الیٰ السماء ہوگا۔ پھر وفات ہوگی) امام ابو جعفر طبریؒ فرماتے ہیں کہ ان تمام مذکورہ اقوال میں سے ہمارے نزدیک صحیح تر قول ان کا ہے جو اس کا معنی یہ کرتے ہیں کہ اے عیسیٰ علیہ السلام! میں تجھے زمین سے قبض کر کے اپنی طرف اٹھانے والا ہوں۔ کیونکہ آنحضرتﷺ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے اور ان کے دجال کو قتل کرنے کی متواتر احادیث موجود ہیں۔}
امام ابن جریرؒ کے بیان سے واضح ہوا کہ اس آیت کریمہ کے حق اور صحیح تفسیر یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ زمین سے آسمان پر اٹھایا گیا۔ پھر وہ نازل ہوکر دجال کو