کرنے پر قادر نہ ہوگا۔ ان اﷲ علیٰ کل شیٔ قدیر!
وثانیا، اس لئے کہ اگر توفی کا مجازی معنی بھی اس آیت کریمہ میں مراد لیا جائے تب بھی باطل پرستوں کا مدعا پورا نہیں ہوگا۔ اہل لغت نے تصریح کی ہے کہ توفی کے مجازی معنی وفات (اور نیند) کے ہیں۔
’’ومن المجاز توفی فلان وتوفاہ اﷲ تعالیٰ ای ادرکہ الوفاۃ (اساس البلاغہ ج۲ ص۳۴۱، تاج العروس ج۱۰ ص۳۴۴)‘‘ {اور توفی کا یہ مجازی معنی ہے کہ فلاں کو وفات دی گئی اور ’’توفاہ اﷲ‘‘ کہ اﷲتعالیٰ نے اس کو وفات دی اور اس کو موت آپہنچی۔}
اگر اس آیت کریمہ میں توفی کے مجازی معنی بھی ہوں تو اس کا مطلب حسب تصریح مفسرین کرامؒ یہ ہے۔
۱… علامہ ابوحیان اندلسیؒ لکھتے ہیں کہ: ’’وقال الفراء ھی وفات ولکن المعنی متوفیک فی آخر عمرک عند نزولک وقتلک الدجال وفی الکلام تقدیم وتاخیر (البحر المحیط ج۲ ص۴۸۳)‘‘ {امام فراء (ابوزکریا یحییٰ بن زیاد المتوفی ۲۰۷ھ) فرماتے ہیں کہ یہاں توفی کا معنی مجازی وفات ہی مراد ہے۔ لیکن مطلب یہ ہے کہ اﷲتعالیٰ فرماتا ہے کہ میں تجھے تیری آخری عمر میں جب تو نازل ہو کر دجال کو قتل کرے گا تب تجھے وفات دوںگا۔ تو کلام میں تقدیم وتاخیر ہے۔}
مطلب یہ ہے کہ اگر لفظ ’’متوفیک‘‘ پہلے اور ’’رافعک‘‘ لفظوں میں بعد ہے۔ مگر مراد یہ ہے کہ پہلے اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا پھر قیامت کے قریب آسمان سے نازل کرے گا اور وہ دجال لعین (وغیرہ) کو قتل کریںگے تو اس وقت ان کی وفات ہوگی۔ نہ یہ کہ اب وفات ہوچکی ہے۔
۲… امام قرطبیؒ (ابوعبداﷲ محمد بن احمد الانصاریؒ المتوفی۶۷۱ھ) لکھتے ہیں کہ: ’’وقال جماعۃ من اہل المعانی منہم الضحاک والفراء فی قولہ تعالیٰ انی متوفیک ورافعک الیّٰ علی التقدیم والتاخیر لان الواو لا توجب الرتبۃ والمعنی انی رافعک الیّٰ ومطہرک من الذین کفروا ومتوفیک بعد ان تنزل من السماء (تفسیر الجامع لاحکام الکقرآن للقرطبیؒ ج۴ ص۹۹)‘‘ {علم معنی والوں کی ایک جماعت جن میں امام ضحاک (بن مزاحم م۱۰۶ھ)} اور امام الفراء بھی ہیں۔ اﷲتعالیٰ کے