قتل کریںگے اور پھر ان کی وفات ہوگی۔ نہ یہ کہ ان کی وفات ہوچکی ہے۔
تنبیہ
امام ابن جریر الطبریؒ کے ’’واولی ہذہ الاقوال بالصحۃ عندنا‘‘ کے جملہ سے یہ مغالطہ نہ ہو کہ باقی تمام نقل کردہ اقوال بھی صحیح ہیں۔ مگر اولیٰ یہ ہے۔
محقق العصر علامہ زاہد الکوثری (المتوفی ۱۳۷۲ھ) لکھتے ہیں کہ: ’’ولیس فی قول الامام ابن جریر الطبری واولیٰ ہذہ الاقوال بالصحۃ ما یحتج بہ علی ان تلک الاقوال مشترکۃ فی اصل الصحۃ کیف وقد ذکرہا ما ھو معزو الی النصاری ولا یتصور ان یصح ذالک فی نظرہ بل کلامہ ہذا من قبیل ما یقال فلان اذکی من حمار وافقہ من جدار کما یظہر من عادۃ ابن جریر فی تفسیرہ عند نقلہ لروایات مختلفۃ کائنۃ ما کانت قیمتہا العلمیۃ وقد یکون منہا ما ھو باطل حتما (نظرۃ عابرۃ فی مزاعم من ینکر نزول عیسیٰ علیہ السلام قبل الاخرۃ ص۳۱)‘‘ {امام جریر الطبریؒ کے اس قول ’’واولی ہذا الاقوال بالصحۃ‘‘ سے استدلال ہرگز صحیح نہیں کہ باقی اقوال بھی صحت میں مشترک ہیں۔ مگر یہ صحیح تر ہے۔ کیونکہ انہوں نے نصاریٰ (اور ملاحدہ) کی طرف بعض منسوب اقوال بھی نقل کئے ہیں اور ان کے نزدیک ان کے صحیح ہونے کا تصور بھی نہیں کیاجاسکتا بلکہ ان کا کلام یوں ہے۔ جیسا کہ کہا جاتا ہے کہ فلاں گدھے سے زیادہ ذکی اور دیوار سے زیادہ فقیہ ہے۔ جیسا کہ امام ابن جریرؒ کی تفسیر میں یہ عادت ظاہر ہے کہ وہ مختلف روایات جیسی بھی ہوں نقل کر دیتے ہیں۔ گو ان کی علمی طور پر کوئی بھی قدر نہ ہو اور بعض ایسے اقوال بھی نقل کر دیتے ہیں جو قطعی طور پر باطل ہوتے ہیں (تو اس سے باقی تمام اقوال کی نفس صحت پر استدلال غلط ہے)۔}
ثابت ہوا کہ جن مفسرین کرامؒ نے توفی کے حقیقی معنی پورا پورا لینے کے کئے ہیں۔ ان کے نزدیک بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات نہیں ہوئی اور جو توفی کے مجازی معنی وفات کے کرتے ہیں ان کے نزدیک بھی ابھی تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات نہیں ہوئی۔ بلکہ جب وہ آسمان سے نازل ہوکر دجال لعین اور یہود ونصاریٰ وغیرہم کفار کو نیست ونابود کریں گے تو پھر ان کی وفات ہوگی۔ الحاصل اہل حق میں سے کسی نے بھی ’’متوفیک‘‘ کے لفظ سے یہ مراد نہیں لی کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات ہوچکی ہے اور وہ آسمان پر زندہ نہیں اور یہ کہ وہ قبل از قیامت آسمان سے نازل نہیں ہوںگے۔ یہ باطل نظریہ صرف ملحدوں