عن ان یتمکنوا من قتلک (تفسیر کبیر ج۸ ص۷۲)‘‘ {یعنی میں تیری عمر پوری کروںگا تو اس وقت میں تجھے وفات دوںگا اور میں یہود کے ہاتھوں تجھے قتل نہیں ہونے دوںگا۔ بلکہ تجھے اپنے آسمان کی طرف اٹھاؤںگا اور تجھے اس سے محفوظ رکھوںگا کہ یہود تجھے قتل کرنے پر قدرت پائیں۔}
اس تفسیر میں توفی کا لغوی اور حقیقی معنی پورا کرنا ملحوظ رکھاگیا ہے۔
۲… مشہور مفسر علامہ رجااﷲ محمود بن عمر الزمحشری (المتوفی۵۲۸ھ) متوفیک کا حقیقی معنی ملحوظ رکھ کر لکھتے ہیں: ’’ای متوفی اجلک (تفسیر کشاف ج۱ ص۳۶۶)‘‘ {یعنی میں تیری عمر پوری کروںگا۔}
۳… قاضی عبداﷲؒ بن عمر البیضاویؒ (المتوفی۶۸۴ھ) تحریر فرماتے ہیں: ’’متوفیک ای مستوفی اجلک ومؤخرک الیٰ اجلک المسمی عاصماً ایاک من قتلہم او قابضک من الارض من توفیت مالی اومتوفیک نائما اذروی انہ رفع نائما (تفسیر بیضاوی ج۱ ص۱۶۳)‘‘ {متوفیک کا معنی یہ ہے کہ میں تیری میعاد پوری کروںگا اورتیری مقرر میعاد تک تجھے مہلت دوںگا اور یہود کے قتل کرنے سے تجھے بچاؤں گا اور یا یہ معنی ہے کہ میں تجھے زمین سے پورا پورا لینے والا ہوں۔ جیسے محاورہ ہے کہ میں نے اپنا پورا مال وصول کر لیا اور یا یہ کہ میں تجھے نیند کی حالت میں پورا پورا لینے والا ہوں۔ کیونکہ مروی ہے کہ بحالت نیند آپ کو آسمان پر اٹھایا گیا۔}
ان تمام تفسیروں میں توفی کے حقیقی، اصلی اور لغوی معنی کو باقاعدہ ملحوظ رکھاگیا ہے۔ اصلی معنی سے اغماض نہیں کیاگیا۔
۴… علامہ آلوسیؒ اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’ان المراد انی مستوفی اجلک وممیتک حتف انفک لا اسلط علیک من یقتلک (تفسیر روح المعانی ج۳ ص۱۷۹)‘‘ {کہ بے شک مراد یہ ہے کہ میں تیری عمر اور مدت پوری کروںگا اور تجھے طبعی طور پر موت دوںگا اور تیرے قتل کرنے پر کسی کو مسلط نہیں ہونے دوںگا۔}
ان مفسرین کرامؒ کی نقل اور بیان کردہ سب تفسیروں میں توفی کے حقیقی اور لغوی معنی کو باقاعدہ ملحوظ رکھا گیا ہے اور کسی نے بھی حقیقی اور لغوی معنی کو نظر انداز نہیں کیا تو اب ان تفاسیر کا خلاصہ یہ ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات نہیں ہوئی۔ اﷲ نے ان کو جسم وروح دونوں کے ساتھ آسمان پر اٹھالیا ہے اور ان کی مقرر میعاد پوری ہوگی اور کوئی بدباطن ان کو قتل