ان کو پورا پورا بدلہ دے۔}
۵… ’’وانما توفون اجورکم یوم القیٰمۃ (آل عمران:۱۸۵)‘‘ {اور پختہ بات ہے کہ تم کو تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ قیامت کے دن دیا جائے گا۔}
۶… ’’فیوفیہم اجورہم (النسائ:۱۷۳)‘‘ {پس ان کو ان کا پورا پورا بدلہ اور ثواب دے گا۔}
ان تمام مقامات پر لفظ باب تفعیل میں استعمال ہوا ہے اور اس میں پورا پورا دینے کا مفہوم اور معنی شامل ہے اور یہ لفظ جب باب تفعل میں آئے تو اس کا مصدر توفی آتا ہے اور اس کا معنی پورا پورا قبض کرنا اور پورا پورا وصول کرنا اور پورا پورا لینا ہوتا ہے۔ اسی حقیقی معنی کو ملحوظ رکھ کر مفسرین کرامؒ یہ معنی کرتے ہیں۔
۱… امام فخرالدین محمد بن عمر الرازی (المتوفی ۶۰۶ھ) فرماتے ہیں کہ: ’’ان التوفی ھو القبض یقال وفانی فلان دراہمی واوفانی وتوفیتہا منہ (تفسیر کبیر ج۸ ص۷۲)‘‘ {توفی کا معنی وصول کرنا ہے۔محاورہ ہے کہ فلاں نے مجھے میرے دراہم پورے پورے دئیے اور میں نے اس سے اپنے دراہم پورے پورے وصول کئے۔}
اور اس لغوی معنی کو جو توفی کا حقیقی اور اصلی معنی ہے پیش نظر رکھ کر متوفیک کی امام رازیؒ یہ تفسیر کرتے ہیں کہ: ’’ان التوفی اخذ الشیٔ وافیا ولما علم اﷲ تعالیٰ ان من الناس من یخطر ببالہ ان الذی رفعہ اﷲ تعالیٰ ھو روحہ لا جسدہ ذکر ہذا الکلام لیدل علی انہ علیہ الصلوٰۃ والسلام رفع بتمامہ الیٰ السماء بروحہ وجسدہ (تفسیر کبیر ج۸ ص۷۲)‘‘ {بلاشبہ توفی کا معنی شے کو پورا پورا وصول کرنا اور لینا ہے اور یہ بات جب اﷲتعالیٰ کے علم میں تھی کہ بعض لوگوں کے (جیسے فلاسفہ، ملاحڈہ اور قادیانی وغیرہ) خیال میں یہ بات آئے گی کہ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی روح کو اٹھایا ہے نہ کہ ان کے جسم کو تو اس لئے اﷲتعالیٰ نے یہ فرمایا کہ میں تجھے پورا پورا لے کر اپنی طرف اٹھانے والا ہوں تاکہ واضح ہوکہ ان کی روح کو ہی نہیں۔ بلکہ بتمامہ جسم اور روح دونوں کو آسمان کی طرف اٹھایا گیا ہے۔}
ملاحظہ کیجئے کہ امام رازیؒ نے کس طرح ملحدوں کے باطل شبہ اور وہم کو پیش نظر رکھ کر ان کا واضح طور پر رد کیا ہے اور نیز فرماتے ہیں: ’’ای متم عمرک فحینئذ اتوفاک فلا اترکہم حتی یقتلوک بل انا رافعک الیٰ سمائی ومقربک بملائکتی واصونک