الجواب
ان ملحدین کا یہ استدلال قطعاً باطل اور یقینا مردود ہے۔ اوّلاً اس لئے کہ متوفیک کا مجرد مادہ وفات نہیں بلکہ وفی ہے۔ اس کے معنی عربی لغت میں پورا پورا دینے اور لینے کے ہیں۔ وفائ، ایفاء اور استیفاء اسی معنی کے لئے بولے جاتے ہیں اور الکریم اذا وعد وفی مشہور محاورہ ہے۔ تمام کتب لغت عربی زبان کی اس پر شاہد ہیں اور چونکہ موت کے وقت بھی انسان اپنی اجل اور مقدر عمر پوری کر لیتا ہے اور اسی کی روح واپس لے لی جاتی ہے۔ اس مناسبت سے یہ لفظ بطور مجاز کے موت کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے۔ جیسے نیند کے لئے یہ لفظ مجازا استعمال ہوتا ہے۔
اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’ھو الذی یتوفاکم باللیل ویعلم ما جرحتم بالنہار (الانعام:۶۰)‘‘ {اور وہ وہی ہے کہ (سلاکر) قبضہ میں لے لیتا ہے تم کو رات میں اور جانتا ہے جو کچھ تم کرتے ہو دن میں۔}
اس آیت کریمہ میں توفی کا لفظ مجازاً نیند پر اطلاق ہوا ہے اور مشہور ہے۔ ’’المجاز قنطرۃ الحقیقۃ‘‘ کہ مجاز حقیقت کا پل ہے۔ جب راستہ بالکل ہموار اور سڑک بالکل سیدھی ہو تو اس پر پل بنانا اور پھر اس کو عبور کرنا صرف احمقوں اور دیوانوں کا کام ہے۔ عقلمندوں کا نہیں اور جب یہ مزید کے ابواب میں استعمال ہوتا ہے تو مجرد کے معنی کو ملحوظ رکھا جاتا ہے۔ نظرانداز نہیں کیا جاتا۔ مثلاً جب یہ باب افعال میں آتا ہے: ’’اوفانی فلان دراہمی‘‘ تو معنی یہ ہوتا ہے کہ فلاں نے میرے دراہم مجھے پورے پورے دے دئیے اور جب باب تفعیل میں آتا ہے۔ وفی یوفی توفیۃ تو اس کا معنی پورا پورا دینے کا ہوتا ہے اور قرآن کریم میں متعدد مقامات میں اس باب (تفعیل) میں یہ استعمال ہوا ہے۔
۱… جس رکوع میں متوفیک کا جملہ موجود ہے۔ اسی رکوع میں یہ الفاظ بھی موجود ہیں۔ ’’فیوفیہم اجورہم (آل عمران:۶)‘‘ {یعنی اﷲ تعالیٰ ان کو پورا پورا بدلہ اور حق دے گا اور دوسرے مقامات میں ہے۔}
۲… ’’ووفیت کل نفس ماعملت (الزمر:۷۰)‘‘ {اور ہر نفس کو اس کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔}
۳… ’’فوفاہ حسابہ (النور:۳۹)‘‘ {پھر اﷲتعالیٰ نے اس کو پورا پورا حساب پہنچا دیا۔}
۴… ’’ولیوفیہم اعمالہم (الاحقاف:۱۹)‘‘ {اور تاکہ ان کے اعمال کا