الف… ’’حضرت مسیح علیہ السلام کی بن باپ پیدائش اسلامی عقائد میں داخل نہیں۔ یہ عیسائیت کا اصول ہے۔‘‘ (بیان القرآن ج۱ ص۲۱۳)
ب… ’’توریت وانجیل کی تاریخی شہادت، توریت وانجیل میں بے شک تحریف ہوئی۔ لیکن آخر ان کی پیش گوئیوں میں بہت کچھ صداقت موجود رہی ہے۔ اسی طرح تاریخی واقعات میں جس بات کو قرآن کریم نہ جھٹلائے اس کے رد کرنے کی ہمارے پاس کوئی وجہ نہیں۔ اب اناجیل سے ثابت ہے کہ حضرت مریم علیہا السلام کے ساتھ یوسف کا تعلق زوجیت کا تھا اور اسی تعلق سے آپ کے ہاں بہت سی اولاد بھی ہوئی۔‘‘ (بیان القرآن ج۱ ص۲۱۳،۲۱۴)
ج… (اس کے بعد چند انجیلی حوالے نقل کر کے آخر میں لکھتے ہیں کہ) ’’پس یہ انجیلی شہادت صاف بتاتی ہے کہ حضرت مریم کا تعلق زوجیت تو یوسف کے ساتھ ضرور ہوا اور اس تعلق سے اولاد بھی پیدا ہوئی۔‘‘ (بیان القرآن ج۱ ص۲۱۴)
ہمارا مقصد اس مقام پر مولوی محمد علی صاحب لاہوری، مرزاغلام احمد قادیانی اور غلام احمد پرویز وغیرہ کے شبہات کو نقل کر کے ان کے مفصل باحوالہ جوابات دینا نہیں، صرف یہ بتانا ہے کہ کیا یہ باطل نظریہ مولوی محمد علی صاحب لاہوری اور ان کی جماعت کی تکفیر کے لئے ناکافی ہے؟ اور کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا باپ تسلیم کرنے والا بھی مسلمان ہے؟
۲… قرآن کریم، احادیث متواترہ اور اجماع امت سے یہ مسئلہ ثابت ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اٹھایا گیا اور وہ ابھی تک بقید حیات دوسرے آسمان پر تشریف فرماہیں اور قرب قیامت نازل ہوکر دجال لعین کو قتل کریںگے اور پھر چالیس سال زندہ رہ کر آخر وفات پائیںگے اور مدینہ طیبہ میں آنحضرتﷺ کے روضۂ اقدس میں دفن کئے جائیںگے۔ لیکن مولوی محمد علی لاہوری لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام وفات پاچکے ہیں اور ان کی وفات کا انکار کرنا خلاف نصوص ہے۔‘‘
چنانچہ وہ لکھتے ہیں کہ:
الف… ’’حالانکہ نہ صرف قرآن شریف وحدیث میں حیات مسیح کا مطلق کوئی ذکر نہیں۔ بلکہ دونوں جگہ آپ کی وفات کا ذکر ہے۔‘‘ (بیان القرآن ج۱ ص۲۲۵)
ب… بخاری شریف کے حوالہ سے ’’فاقول کما قال العبد الصالح کنت علیہم شہیداً مادمت فیہم۰ فلما توفیتنی۰ کنت انت الرقیب علیہم‘‘ میں لفظ ’’توفیتنی‘‘ کا حقیقی معنی چھوڑ کر جو پورا پورا لینے کے ہوتے ہیں اور جس کا مجرد مادہ وفیٰ ہے