کی تفسیر یہ کی ہے کہ اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہ رہے گا جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی وفات سے پہلے ایمان نہ لائے۔ بخدا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اب اﷲتعالیٰ کے پاس زندہ ہیں اور جب نازل ہوںگے تو سبھی لوگ ان پر ایمان لائیںگے۔}
اور دوسرے طریق سے تفسیر یوں نقل کرتے ہیں کہ: ’’ان رجلا قال للحسنؒ یا ابا سعید قول اﷲ عزوجل وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ قال قبل موت عیسیٰ علیہ السلام ان اﷲ تعالیٰ رفع الیہ عیسیٰ علیہ السلام وھو باعثہ قبل یوم القیٰمۃ مقاما یؤمن بہ البر والفاجر وکذا قال قتادۃ وعبدالرحمن بن زید بن اسلم وغیرہ واحد وہذا القول ہو الحق کما سنبیّنہ بعد بالدلیل القاطع ان شاء اﷲ تعالیٰ (تفسیر ابن کثیر ج۱ ص۵۷۶)‘‘ {ایک شخص نے حضرت حسن (بصری) سے دریافت کیا کہ اے ابوسعید (یہ ان کی کنیت تھی) اﷲ تعالیٰ کے اس ارشاد کا کہ اہل کتاب میں سے کوئی بھی نہ رہے گا جو اس کی موت سے پہلے اس پر ایمان نہ لائے گا۔ کیا معنی ہیں؟ حسن بصریؒ نے فرمایا کہ بے شک اﷲتعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو ایسی جگہ بھیجے گا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات سے پہلے تمام نیک وبد ان پر ایمان لائیںگے اور یہی تفسیر حضرت قتادہؒ عبدالرحمنؒ بن زیدؒ بن اسلم اور بے شمار مفسرین نے کی ہے اور یہی تفسیر حق ہے۔ ہم آگے دلیل قاطع سے اسے بیان کریںگے۔ انشاء اﷲ العزیز!}
اس کے بعد حافظ ابن کثیرؒ نے نصوص قرآنیہ، احادیث متواترہ اور اجماع امت کے حوالہ سے اسے مبرہن کیا ہے۔ قرآن کریم کے اس روشن بیان سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات اور ان کی وفات سے قبل یہود ونصاریٰ وغیرہم کفار کا ان پر ایمان لانا ثابت ہے۔ ’’لاریب فیہ‘‘ اور ان کی آمد ونزول سے پہلے ساری دنیا کفر ظلم وجور اور قتل وغارت اور بے حیائی سے بھری ہوئی ہوگی۔
نہ گھبرا کفر کی ظلمت سے تو اے نور کے طالب
وہی پیدا کرے گا دن بھی کی ہے جس نے شب پیدا
کتب تفاسیر میں ’’الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ کی دو تفسیریں نقل کی گئی ہیں۔ ایک یہ کہ بہ کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف راجع ہے اور قبل موتہ میں ضمیر کتابی یعنی یہودونصاریٰ کے ہر ہر فرد کی طرف راجع ہے اور مطلب یہ ہے کہ ہر یہودی اور نصرانی اپنی موت سے پہلے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر ایمان لائے گا۔ وہ یوں کہ نزع اور جان کنی کے وقت انہیں اپنے باطل