اﷲتعالیٰ نے زندہ آسمان پر اٹھا لیا۔ چنانچہ انگریز مورخین کی بین الاقوامی مرتب کردہ کتابوں میں شمعون کرینی کا مصلوب ہونا ہی واضح طور پر مذکور ہے۔ (ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا ج۳ ص۱۷۶ اور انسائیکلو پیڈیا آف ریلیجن اینڈ ایتھکس ج۴ ص۸۳۳) مزید تشریح مولانا عبدالماجد دریا بادیؒ کی کتاب قصص مسائل میں دیکھیں۔
علامہ ابوحیان اندلسیؒ ’’بل رفعہ اﷲ الیہ‘‘ کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: ’’ہذا ابطال لما ادعوہ من قتلہ وصلبہ وھو حی فی السماء الثانیۃ علی ماصح عن الرسولﷺ فی حدیث المعراج (البحراالمحیط ج۳ ص۳۹۱)‘‘ {اس ارشاد میں یہود کے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کرنے اور ان کو سولی پر لٹکانے کے دعویٰ کا ابطال ہے۔ حالانکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دوسرے آسمان پر زندہ ہیں۔ جیسا کہ معراج کی صحیح حدیث میں آنحضرتﷺ سے ثابت ہے۔}
آگے اﷲتعالیٰ کا فرمان ہے: ’’وما قتلوہ یقینا۰ بل رفعہ اﷲ الیہ۰ وکان اﷲ عزیزا حکیما۰ وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ ویوم القیٰمۃ یکون علیہم شہیدا (النسائ:۱۵۸،۱۵۹)‘‘ {اور اس کو انہوں نے یقینا قتل نہیں کیا۔ بلکہ اس کو اﷲتعالیٰ نے اپنی طرف اٹھا لیا ہے اور اﷲتعالیٰ زبردست حکمت والا ہے اور اہل کتاب سے کوئی ایسا نہ رہے گا جو عیسیٰ علیہ السلام پر ان کی وفات سے پہلے ایمان نہ لائے اور قیامت کے دن وہ ان پر گواہ ہوگا۔}
اس کی تفسیر میں مولانا شبیر احمد عثمانیؒ لکھتے ہیں کہ: ’’حضرت عیسیٰ علیہ السلام زندہ موجود ہیں۔ آسمان پر جب دجال پیدا (اور خارج ہوگا) تب اس جہان میں تشریف لاکر اسے قتل کریںگے اور یہود ونصاریٰ (وغیرہم کفار) ان پر ایمان لائیںگے کہ بے شک عیسیٰ علیہ السلام زندہ ہیں۔ مرے نہ تھے اور قیامت کے دن حضرت عیسیٰ علیہ السلام ان کے حالات اور اعمال کو ظاہر کریںگے۔ یہود نے میری تکذیب اور مخالفت کی اور نصاریٰ نے مجھ کو خداتعالیٰ کا بیٹا کہا۔ ‘‘
(فوائد عثمانیہ ص۱۳۳)
۱… حافظ ابن کثیرؒ بطریق ابی رجائؒ یہ تفسیر نقل کرتے ہیں کہ: ’’عن الحسن وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ قال قبل موت عیسیٰ علیہ السلام واﷲ انہ لحیی الان عنداﷲ تعالیٰ ولکن اذا نزل آمنوا بہ اجمعون (تفسیر ابن کثیر ج۱ ص۵۷۶)‘‘ {حضرت حسنؒ (بصری) نے ’’وان من اہل الکتاب‘‘