عبداﷲ بن عباسؓ جیسے ترجمان قرآن اور جلیل القدر صحابہ کرامؓ اور معتبر ومستند تابعینؒ کی تفسیر اس پر مستزاد ہے اور احادیث متواترہ سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد اور نزول اپنی جگہ حق ہے۔
۴… امام ابن جریر الطبریؒ (محمد بن جریر بن یزید المتوفی ۳۱۰ھ) لعلم اور لعلم دونوں قرأتوں کا حوالہ دے کر بعض حضرات صحابہ کرامؓ بعض تابعین اور تبع تابعینؒ وغیرہم کی تفسیریں نقل کرتے ہیں اور بحوالہ حضرت عبداﷲ بن عباسؓ نقل کرتے ہیں کہ: ’’قال نزول عیسیٰ بن مریم علیہما السلام (تفسیر ابن جریر ج۲۵ ص۹۰)‘‘ {انہوں نے فرمایا کہ اس سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول مراد ہے۔ (کیونکہ وہ قیامت کی نشانی ہیں)}
الحاصل قرآن کریم کے اس قطعی بیان اور مضمون سے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی حیات ونزول من السماء اور آمد بالکل واضح ہے۔ جیسا کہ حضرات صحابہ کرامؓ، تابعینؒ، تبع تابعین اور مفسرین عظام کی روشن تفاسیر سے یہ بات بیان ہوئی ہے۔ فلاسفہ ملاحدہ اور قادیانی وغیرہ باطل فرقے اہل اسلام کے ایمان کو متزلزل کرنے کے لئے جیسے اور جتنے بھی حربے اختیار کریں، اہل حق پر کچھ اثر نہیں۔
ہزاروں آفتیں سنگ مزاحم بن کے آتی ہیں
مگر مردان حق آگاہ تھرایا نہیں کرتے
دوسری دلیل یہود کا یہ باطل دعویٰ تھا اور ہے کہ ہم نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو قتل کر دیا ہے اور سولی پر لٹکا دیا ہے۔
اﷲتعالیٰ نے ان کا یوں رد فرمایا: ’’وما قتلوہ وما صلبوہ ولکن شبہ لہم (النسائ:۱۵۷)‘‘ {اور انہوں نے نہ تو اس کو قتل کیا اور نہ سولی پر چڑھایا اور لیکن وہ شبہ میں ڈالے گئے۔}
شیخ الاسلام مولانا شبیر احمد عثمانیؒ (المتوفی۱۳۶۹ھ) اس مضمون کی خاصی تشریح اور تفسیر کرنے کے بعد آخر میں فرماتے ہیں۔ ’’حق یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام ہرگز مقتول نہیں ہوئے۔ بلکہ آسمان پر اﷲتعالیٰ نے اٹھالیا اور یہود کو شبہ میں ڈال دیا۔‘‘ (فوائد عثمانیہ ص۱۳۲)
اور اس اشتباہ کی وجہ یہ ہوئی کہ ایک شخص شمعون کرینی کو جس کی شکل حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی شکل سے ملتی جلتی تھی۔ (جیسا کہ حدیث میں حضرت عروۃ بن مسعودؓ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ہم شکل کہاگیا ہے) علاقہ شام صوبہ یہودیہ کے نیم خود مختار جابر اور ظالم حاکم ہیروڈ کے ایام میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام سمجھ کر سولی پر لٹکا دیا گیا اور مصلوب ہوگیا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو