حیث لا اعتداد باحتمالات خیالیۃ لم تنشا من دلیل کیف والاحادیث قد تواترت فی ذالک واستمرت الامۃ خلفا عن سلف علی الاخذبہا وتدوین موجبہا فی کتب الاعتقاد من قدیم العصور الی الیوم فماذا بعد الحق الا الضلال (نظرۃ عابرۃ فی مزاعم من ینکر نزول عیسیٰ علیہ السلام قبل الاخرۃ ص۳۶)‘‘ {گذشتہ بحث سے یہ امر واضح ہو گیا ہے کہ تنہا نصوص قرآنیہ ہی حتمی طور پر یہ بتاتی ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ اٹھایا گیا ہے اور یہ کہ وہ آخر زمانہ میں نازل ہوںگے۔ ان نصوص کی موجودگی میں خیالی احتمالات کا قطعاً کوئی اعتبار نہیں جو کسی بھی دلیل پر مبنی نہیں ہیں اور بھلا ان کا کیونکر اعتبار ہوسکتا ہے۔ جب کہ متواتر احادیث سے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا رفع الیٰ السماء اور نزول ثابت ہے اور اسی عقیدہ کو امت خلفاً بعد سلفٍ قدیم زمانوں سے آج تک اپنانے اور اخذ کرنے اور کتب عقائد میں اس کے حکم کو درج کرنے پر قائم اور مستمر ہے سو حق کے بعد بغیر گمراہی کے اور کیا ہے؟}
علامہ محقق کوثریؒ نے اہل اسلام اور اہل حق کے حتمی عقیدہ کا اثبات قرآن کریم کی نصوص قطعیہ اور احادیث متواترہ اور امت کے اجماع کے حوالے سے کیا ہے اور باطل پرستوں کی وہمی موشگافیوں کا واضح الفاظ میں رد کیا ہے۔ جس کے بعد گمراہی اور ضلالت کے سوا اور کچھ نہیں رہتا۔ نیز دوسرے مقام پر لکھتے ہیں کہ: ’’واما تواتر احادیث المہدی والدجال والمسیح فلیس بموضع ریبۃ عند اہل العلم بالحدیث وتشکک بعض المتکلمین فی تواتر بعضہا مع اعترافہم بوجوب اعتقاد ان اشراط الساعۃ کلہا حق فمن قلۃ خبرتہم بالحدیث (ایضاً ص۴۹)‘‘ {اور بہرحال امام مہدی کی آمد دجال کے خروج اور حضرت مسیح علیہ السلام کے نزول کی احادیث کا تواتر حضرات محدثین کرام کے نزدیک شک وشبہ کے مقام سے بالکل بالاتر ہے۔ باقی بعض متکلمین کا ان میں سے بعض روایات کے تواتر میں شک کرنا باوجود ان کے اس اعتراف کے کہ قیامت کی سب کی سب نشانیاں حق ہیں اور ان کا اعتقاد کرنا واجب ہے۔ (جن میں امام مہدی کی آمد، دجال کا خروج اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول وغیرہ بھی ہے) علم حدیث سے بے خبری پر مبنی ہے۔}
یہ ایک خالص علمی اور فنی بحث ہے کہ بعض اشراط الساعہ کی حدیثیں متواتر ہیں یا مشہور۔ مگر غیر متواتر ہیں۔ لیکن تلقی امت بالقبول کی وجہ سے ان پر عقیدہ رکھنا واجب ہے۔ ان