شیطانی کارروائی اور گمراہی ہے۔ یہ یاد رہے کہ لعلم میں دو قرأتیں ہیں۔ ایک بفتح لام اور بکسر عین اور یہی اکثر اور جمہور قراء کرام کی قرأت ہے اور علم کا معنی دانستن جاننا پہچاننا اور شناخت کرنا ہے۔ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور آمد سے قیامت کے قرب کا علم شناخت اور پہچان ہوگی کہ اب قیامت بالکل قریب ہے اور جب تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آسمان سے نزول اور آمد نہ ہو گی اس وقت تک قیامت ہرگز نہیں آئے گی۔ اس آیت کریمہ کی تفسیر میں حضرات مفسرین کرامؒ کے چند حوالے ملاحظہ فرمائیں۔
۱… حضرت امام فخرالدین الرازیؒ (محمد بن عمر المتوفی۶۰۶ھ) اس کی تفسیر میں لکھتے ہیں کہ: ’’وانہ ای عیسیٰ لعلم للساعۃ شرط من اشراطہا تعلم بہ فسمی الشیٔ الدال علی الشیٔ علما لحصول العلم بہ (تفسیر کبیر ج۲۷ ص۲۲۲)‘‘ {اور بے شک وہ یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام البتہ نشانی ہے قیامت کی۔ یعنی قیامت کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے۔ اس لئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے قیامت کا علم ہوگا۔ اس لحاظ سے علامت کو جو کسی شے کے وجود پر دلالت کرتی ہے علم کہاگیا۔ کیونکہ اس علامت کے ساتھ اس شئے کا علم حاصل ہوتا ہے۔}
یعنی علامت کا اطلاق علم پر ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ اکثر مترجمین حضرات لعلم کا معنی بھی نشانی کے کرتے ہیں اور یہ ترجمہ دوسری قرأت کے عین موافق ہے اور دوسری قرأت لعلم ہے۔ اس میں ابتداء میں لام اور اس کے بعد عین اور دوسری لام پر بھی فتح ہے۔ جس کا معنی نشانی اور علامت ہے اور یہ قرأت حضرت عبداﷲؓ بن عباسؓ، حضرت ابوہریرہؓ، حضرت ابومالک غفاریؓ، حضرت زید بن علیؓ، حضرت قتادہؒ، حضرت مجاہدؒ، حضرت ضحاکؒ، حضرت مالک بن دینارؒ، حضرت الاعمش کلبیؒ اور بقول علامہ ابن عطیہؒ، حضرت ابونصرۃؒ کی ہے۔ (تفسیر البحر المحیط ج۸ ص۲۶، روح المعانی ج۲۵ ص۹۵) اور دونوں قرأتوں کا مفہوم بالکل واضح ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور آمد سے قرب قیامت کا علم ہوگا اور وہ قیامت کی نشانی ہیں۔
۲… علامہ سید محمود آلوسیؒ (المتوفی ۱۲۷۰ھ) لعلم اور لعلم دونوں قرأتوں کا تذکرہ کر کے آخرمیں فرماتے ہیں کہ: ’’والمشہور نزولہ علیہ السلام بدمشق وان الناس فی صلوٰۃ الصبح فیتاخر الامام وھو المہدی فیقدمہ عیسیٰ علیہ السلام ویصلی خلفہ ویقول انما اقیمت لک (روح المعانی ج۲۵ ص۹۶)‘‘ {اور مشہور یہی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام دمشق میں نازل ہوںگے۔ جب کہ لوگ صبح کی نماز میں مصروف