حضرت ابوذرالغفاریؒ (جندب بن جنادۃ وقیل بن السکن المتوفی ۳۲ھ) کی حدیث میں ہے: ’’قال طلبت رسول اﷲﷺ لیلۃ فوجدتہ قائما یصلی فاطال الصلوٰۃ ثم قال اوتیت اللیلۃ خمسا لم یؤتہا نبی قبلی ارسلت الی الاحمر والاسود قال مجاہد الانس والجن الحدیث (مستدرک ج۲ ص۴۲۴، قال الحاکمؒ والذہبیؒ صحیح علی شرطہما)‘‘ {فرماتے ہیں کہ میں نے ایک رات (کسی ضرورت کی وجہ سے) آنحضرتﷺ کو تلاش کیا تو میں نے دیکھا کہ آپ کھڑے نماز پڑھ رہے ہیں۔ آپ نے بہت لمبی نماز پڑھی۔ پھر (بعد از فراغت) فرمایا مجھے آج کی رات ایسی پانچ چیزیں دی گئی ہیں جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو نہیں دی گئی۔ ایک یہ کہ میں سرخ اور سیاہ مخلوق کی طرف رسول بناکر بھیجا گیا ہوںَ حضرت مجاہدؒ فرماتے ہیں یعنی انسانوں اور جنوں کی طرف۔}
غرضیکہ آنحضرتﷺ کی نبوت ورسالت انسانوں اور جنوں اور جملہ مکلف مخلوق کے لئے ہے۔ جب کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت اور نبوت صرف اور صرف بنی اسرائیل کے لئے تھی۔ اﷲتعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بارے قرآن کریم میں فرمایا ہے۔
’’ورسولا الیٰ بنی اسرائیل (آل عمران:۴۹)‘‘
کہ اﷲتعالیٰ نے ان کو صرف بنی اسرائیل کا رسول بناکر بھیجا ہے اور انجیل کا بھی یہی درس اور سبق ہے۔ چنانچہ (انجیل متی باب۱۵ آیت۲۴) میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا خود اپنا بیان ہے۔ ’’میں اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے سوا کسی اور کے پاس نہیں بھیجا گیا۔‘‘ اور یہی تعلیم حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے اپنے صحابیوں، شاگردوں اور حواریوں کو دی تھی۔ چنانچہ (انجیل متی باب۱۰ آیت۵،۶) میں ہے۔ ’’ان بارہ کو یسوع نے بھیجا اور ان کو حکم دے کر کہا غیر قوموں کی طرف نہ جانا اور سامریوں کے کسی شہر میں داخل نہ ہونا۔ بلکہ اسرائیل کے گھرانے کی کھوئی ہوئی بھیڑوں کے پاس جانا۔‘‘ان صریح حوالوں سے معلوم ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور آمد سے مسئلہ ختم نبوت پر کوئی حرف نہیں آتا۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی رسالت تو صرف بنی اسرائیل کے لئے ہی تھی اور آپؐ سے پہلے ان کو نبوت ورسالت ملی تھی نہ کہ بعد اور آنحضرتﷺ کی نبوت اور رسالت تمام مکلف مخلوق کے لئے ہے اور آپ ساری دنیا کے نبی رسول اور سردار ہیں۔
(انجیل یوحنا باب۱۴ آیت۳۰) میں ہے۔ ’’اس کے بعد میں تم سے بہت سی باتیں نہ کروں گا۔ کیونکہ دنیا کا سردار آتا ہے اور مجھ میں اس کا کچھ نہیں۔‘‘ یعنی جتنی خوبیاں اوصاف اور کمالات