واشتہرت فیہ الاخبار ولعلہا بلغت مبلغ التواتر المعنوی ونطق بہ الکتاب علی قول ووجب الایمان بہ واکفر منکرہ کالفلاسفۃ من نزول عیسیٰ علیہ السلام فی آخر الزمان، لا نہ کان نبیا قبل تحلی نبینا صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم بالنبوۃ فی ہذہ النشأۃ (روح المعانی ج۲۲ ص۳۲)‘‘ {اور اس بات سے ختم نبوت کے عقیدہ پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ جس پر امت کا اجماع ہے اور اس پر مشہور روایات موجود ہیں اور شاید کہ یہ تواتر معنوی کو پہنچی ہوئی ہوں اور ایک تفسیر کے رو سے یہ قرآن کریم سے بھی ثابت ہے اور اس پر ایمان لانا واجب ہے اور اس کے منکر جیسے فلاسفہ وغیرہم کافر ہیں اور وہ بات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا آخر زمانہ میں نازل ہونا ہے۔ کیونکہ وہ آنحضرتﷺ کے اس جہان میں وصف نبوت سے آراستہ ہونے سے پہلے نبی تھے۔}
علامہ آلوسیؒ نے ’’وان من اہل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ‘‘ میں اس تفسیر کی طرف اشارہ کیا ہے۔ جس میں ’’قبل موتہ‘‘ کی ضمیر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی طرف لوٹائی گئی ہے اور یہی جمہور کی رائے ہے۔ جیسا کہ اسی پیش نظر کتاب میں اس کی باحوالہ بحث موجود ہے۔ علامہ آلوسیؒ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کی احادیث کو احادیث مشہور سے تعبیر کیا ہے اور فرماتے ہیں کہ شاید یہ تواتر معنوی کو پہنچی ہوں۔ علامہ موصوفؒ تو لعّل فرمارہے ہیں۔ جبکہ جمہور محدثینؒ ، مفسرینؒ، متکلمینؒ، فقہائؒ اور صوفیائؒ ان احادیث کو حقیقتاً متواتر کہتے ہیں۔ وہوالحق اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے منکر کی جیسے فلاسفہ وغیرہم، بلاتردد تکفیر کرتے ہیں اور یہ فرماتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول اور آمد سے ختم نبوت پر قطعاً کوئی زد نہیں پڑتی اور اس کی وجہ ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت اور رسالت آنحضرتﷺ سے پہلے ملی تھی اور وہ صرف بنی اسرائیل کے رسول تھے۔ جب کہ آنحضرتﷺ کی نبوت ورسالت تمام انسانوں، جنوں اور سب جہان والوں کے لئے ہے۔ اﷲتعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’قل یایہا الناس انی رسول اﷲ الیکم جمیعاً (الاعراف:۱۵۸)‘‘ اور نیز ارشاد ہے: ’’تبارک الذی نزّل الفرقان علیٰ عبدہ لیکون للعالمین نذیراً (الفرقان:۱)‘‘
ان نصوص قطعیہ سے ثابت ہوا کہ آنحضرتﷺ کی رسالت تمام انسانوں اور سب عالمین کے لئے ہے۔ چونکہ جنات بھی قرآن کریم (ملاحظہ ہو سورۃ الجن) احادیث متواترہ اور اجماع امت کے رو سے مکلف اور پابند شریعت ہیں۔ اس لئے عالمین کے حکم میں وہ بھی داخل اور شامل ہیں۔