بن مریم علیہ السلام فانہ لا یختلف اثنان فی تکفیرہ لصحۃ قیام الحجۃ بکل ہذا علی کل احد (الملل والنحل ج۳ ص۱۳۹، طبع مصر)‘‘ {بہرحال جس نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ بعینہ فلاں آدمی ہے یا جس نے یہ کہا کہ اﷲ تعالیٰ مخلوق کے اجسام میں سے کسی جسم میں حلول کرتا ہے یا جس نے یہ کہا کہ حضرت محمدﷺ کے بعد حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما الالصلوٰۃ والسلام کے بغیر کوئی نبی آئے گا تو ایسے قائل کی تکفیر میں دو (مسلمان) آدمیوں کا اختلاف بھی نہیں ہے۔ کیونکہ ان میں سے ہر ہربات کے حق اور صحیح ہونے اور ہر ایک پر حجت قائم ہوچکی ہے۔
اس سے عیاں ہوا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد اتنی قطعی اور یقینی ہے کہ ۴۵۶ھ تک دو مسلمان بھی ایسے پیدا نہیں ہوئے جو دیگر مذکورہ امور کی طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد کا انکار کرنے والے کی تکفیر میں اختلاف اور شک بھی کرتے ہوں۔
اور خود علامہ ابن حزمؒ اپنے انداز میں براہین کے ساتھ یہ بات ثابت کرنے کے بعد کہ حضرت محمد رسول اﷲﷺ خاتم الانبیاء والمرسلین ہیں۔ یہ رقمطراز ہیں۔
’’الا ان عیسیٰ بن مریم علیہ السلام سینزل (محلی ج۱ ص۹، طبع مصر)‘‘ {ہاں مگر حضرت عیسیٰ بن مریم علیہما السلام ضرور نازل ہوںگے۔}
یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نزول اور آنحضرتﷺ کے بعد آنے سے ختم نبوت پر قطعاً کوئی زد نہیں پڑتی۔ ایک تو اس لئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نبوت اور رسالت آنحضرتﷺ سے پہلے ملی ہے۔ آپﷺ کے بعد نہیں ملی اور دوسرے اس لئے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد سے حضرات انبیاء کرام علیہم السلام کی تعداد اور گنتی میں کوئی اضافہ نہیں ہوتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آنے کے بعد بھی تعداد اور گنتی وہی رہتی ہے جو پہلے تھی۔ بلکہ اگر یوں کہا جائے کہ اگر بالفرض حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر حضرت عیسیٰ علیہ السلام تک تمام پیغمبر آنحضرتﷺ کے بعد تشریف لے آئیں تو پھر بھی ختم نبوت پر کوئی زد نہیں پڑتی۔ بخلاف کسی اور کے آنے سے کہ وہ نبی تشریعی ہو یا غیر تشریعی۔ عدد اور گنتی میں اضافہ ہوگا اور ختم نبوت پر یقینا زد پڑے گی۔
۱۴… امام شعرانیؒ (الشیخ عبدالوہابؒ بن احمدؒ بن علی الشعرانیؒ المتوفی۹۷۳ھ) تحریر فرماتے ہیں کہ: ’’فقد ثبت نزولہ علیہ السلام بالکتاب والسنۃ وزعمت النصاری ان ناسوتہ صلب ولا ہوتہ رفع والحق انہ رفع بجسدہ الی السماء والایمان بذالک واجب قال اﷲ تعالیٰ بل رفعہ اﷲ الیہ (الیواقیت والجواہر ج۲