آپ ﷺکی صفتِ صلوٰۃ بیان کرنے کے بعد فرمایا: ثم جئت بعد ذٰلك في زمان برد شدید فرأیت الناس علیھم جُلَّ الثیاب، تَحَرَّك أیدیھم تحت الثیاب.
حضرت وائل بن حجر کا مذکورہ قول مدرج ہے؛ کیوں کہ وہ ذکر کردہ سند سے مروی نہیں ہے؛ بلکہ اس کی سند یہ ہے: عن عاصم عن عبد الجبار بن وائل عن بعض أھله عن وائل. (تدریب الراوي: ۱/۲۳۰)
مدرج الاسناد کی چوتھی صورت: وہ حدیث ہے جس کی سند شیخ نے بیان کی، متن بیان کرنے سے پہلے اپنی طرف سے کوئی بات کہی، راوی نے اس بات کو مذکورہ سند کا متن خیال کرکے اس سند سے روایت کردیا، مثلاً: عن ثابت بن موسی العابد الزاھد عن شریك عن الأعمش عن أبي سفیان عن جابر مرفوعًا: من کَثُرَت صلوٰته باللیل، حَسُن وجھه بالنھار.۱
(ابن ماجه: کتاب إقامة الصلوٰة والسنة فیھا: ۱۳۳۳)
مدرج المتن:
یہ ہے کہ متنِ حدیث میں کسی راوی (صحابی یا تابعی) کا کلام اس طرح داخل کر دیا جاوے کہ بظاہر خیال ہو کہ یہ بھی کلامِ رسول اللہ ہے، اور بظاہر متن اور مدرج میں کوئی امتیاز باقی نہ رہے؛ یہ ادراج عام طور سے
۱ امام حاکم فرماتے ہیں : ثابت بن موسیٰ قاضی شریک کے پاس گئے اس وقت وہ حدیث بیان کر رہے تھے، قال رسول اللہ کہه کر خاموش ہوگئے، اتنے میں ثابت بن موسیٰ پر نظر پڑی تو شریک نے اپنی طرف سے یہ بات کہی ’’من کثرت صلوٰته إلخ‘‘. ثابت بن موسیٰ یہ سمجھے کہ یہ جملہ اسی سند کا متن ہے اور اس سند کے ساتھ اس متن کو روایت کرنے لگے۔ (الباعث الحثیث: ۷۲)