حکمِ روایت:
حدیث کے ضعف کو بیان کیے بغیر اس کی روایت اور اس کی اسانید کے حق میں تساھل دو شرطوں کے ساتھ جائز ہے: ۱ عقائد، مثلاً صفاتِ باری تعالیٰ سے اس کا تعلق نہ ہو، ۲ حلال وحرام سے متعلق نہ ہو؛ بلکہ مواعظ وقصص وغیرہ سے متعلق ہو۔
حکمِ عمل:
جمہور علماء کا مسلک یہ ہے کہ تین شرطوں کے ساتھ فضائلِ اعمال کے باب میں یہ حدیث بھی معمول بہ ہوگی، ۱ ضعف شدید نہ ہو، ۲ وہ حدیث کسی اصلِ معمول بہ کے تحت آتی ہو، ۳ اس حدیث پر عمل کرتے وقت اس کے ثبوت کا اعتقاد نہ رکھے؛ بلکہ احتیاط کا ہی اعتقاد رکھے۱۔
Ü پر حسن لغیرہ:۱)، (۶) جرح وتعدیل میں اختلاف سے کوئی پہلو راجح نہ ہو۔ (متوقف فیہ، متابعات وشواہد ملنے پر حسن لغیرہ:۱)، (۷) مدلس کی روایت جو عنعنہ کے ساتھ ہو، (۸) وہ حدیث جس کی سند میں کہیں انقطاع ہو۔ (مرسل، معلق، معضل)، (۹) سند میں وصل وارسال، رفع ووقف یا ابدال راو بآخر کا اختلاف ہو۔
۱ ہر حدیثِ ضعیف کا ضعف تعددِ طرق کی وجہ سے ختم نہیں ہوتا ہے؛ بلکہ بعض ضعف ختم ہوتا ہے اور بعض نہیں ہوتا ہے، جو ضعف ختم ہوتا ہے اس کی تفصیل یہ ہے: راوی کا سیء الحفظ ہونا، ارسال کا ہونا، راوی کا مختلط ہونا، مستور الحال ہونا، سند میں انقطاع ہونا، (ان صورتوں كے پائے جانے پر ان كے متابع پائے جانے كی وجه سے حدیث ضعیف حسن لغیره بن جاتی هے)؛ اور جو ضعف ختم نہیں ہوتا ہے، جیسے: راوی کا متہم بالکذب ہونا، فاسق ہونا، حدیث کا شاذ ہونا وغیرہ۔ (نزہۃ النظر: ۵۲)