آخرِ حدیث میں ہوتا ہے اور کبھی ابتدائے حدیث اور درمیانِ حدیث میں بھی ہوتا ہے، جیسے: متن کے شروع میں اِدراج ہو، جیسے: أبو قُطْن وشبابة عن شعبة عن محمد بن زیاد عن أبي ھریرةؓقال: قال رسول اللہﷺ أسبغوا الوضوء، ویل للأعقاب من النار۱.
متن کے درمیان میں ادراج، جیسے: عبد الحمید بن جعفر عن ھشام بن عروة عن أبیه عن بُسرة بنت صفوان قالت: سمعت رسول اللهﷺ یقول: من مَسَّ ذکرَه أو اُنْثَیَیْه أو رفغیه فلیتوضأ۲.
آخرِ حدیث میں ادراج کی مثال: عن أبي ھریرةؓمرفوعا: ’’للمملوك أجران‘‘، والذي نفسي بیده لولا الجھاد والحج وبِرُّ أمّي لأحببت أن أموت وأنا مملوك.۳ (مسلم: رقم: ۱۶۶)
حکم: اگر ادراج کسی غریب لفظ کی وضاحت کے لیے هو تو جائز هے، اور اگر عمداً هو تو یه ناجائز هے، اور مقاصد کے اعتبار سے اس میں شدت وضعف آتا هے۔
۱ اس حدیث میں پہلا جملہ ’’أسبغوا الوضوء‘‘ حضرت ابو ھریرہ کا کلام ہے جس کو ابو قطن اور شبابہ نے ابتدائے حدیث میں مدرج کردیا ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ امام بخاری نے اس حدیث کو اس طرح روایت کیا ہے: عن اٰدم بن إیاس عن شعبة عن محمد بن زیاد عن أبي ھریرةؓ قال: أسبغوا الوضوء فإن أبا القاسم ﷺ قال: ویل للأعقاب من النار۔. (شرح شرح نخبة الفکر: ۴۶۸)
۲ امام دار قطنی نے فرمایا که عبد الحمید بن جعفر نے وهم کی وجه سے ’’أو انثییه أو رفغیه‘‘ کا درمیان میں ادراج کردیا هے، وه دوکلمے حضرت عروه کے کلام میں سے هے۔ (سنن دار قطني: ۱؍۳۴۸، رقم: ۵۲۸)
۳ ’’والذي نفسي بیده‘‘ إلخ یه مدرج هے ابو هریره کا قول هے، یه بات محال هے که آپؐ یه جمله کهے اور آپ غلام هونے کی تمنا کرے۔ (الباعث: ۷۱)