سے ایک یا چند یا سبھی راوی مسلسل محذوف ہوں ، جیسے: قال أبو موسیٰ غَطّی النبي ﷺ رُکبَتَیه حین دخل عثمان. (بخاري، کتاب الصلوٰة، برقم: ۳۷۰)
حکم: اس قسم کی احادیث ناقابلِ قبول ہوگی؛ اس لیے کہ اس میں شرطِ قبولیت اتصالِ سند نہیں پائی جارہی ہے، مگر صحیحین یا اس طرح کی دوسری کتابیں جن میں صحیح احادیث ہی کے بیان کرنے کا التزام کیا گیا ہے اُن کا حکم کچھ اِس سے مختلف ہے۱۔
مُرْسَلْ:
وہ حدیث ہے جس کی سند کے آخر سے تابعی کے بعد راوی محذوف ہو، خواہ تابعی بڑے رتبہ کا ہو یا چھوٹے درجہ کا ہو، جیسے: عن سعید بن المسیبؓ أن رسول اللہ ﷺ نھیٰ عن المُزَابنة. اس سند میں تابعی سعید بن المسیب نے اپنے بعد كے راوی كو حذف كر دیا۔(مسلم، کتاب البیوع، رقم: ۱۵۳۶)
حکم: اکثر محدثین ضعیف قرار دیتے ہیں ؛ لیکن امام ابو حنیفہ اور امام مالک کے نزدیک اگر ارسال کرنے والا تابعی خود ثقہ ہو اور ثقہ ہی سے روایت کرنے کا التزام کرتا ہو تو اس کی مرسل معتبر ہوگی، یہی رائے امام احمد کی بھی ہے۔
امام شافعیؒ کے نزدیک چند شرطوں کے ساتھ مقبول ہے:
۱ جو محدثین ہمیشہ صحیح احادیث بیان کرنے کا التزام کرتے ہیں اگر یہ حضرات جزم اور یقین کے صیغے ’’ذَکَرَ یا قَالَ‘‘ وغیرہ سے حدیث بیان کرے تو یہ قطعی طور پر صحیح ہوگی؛ مگر جب صیغۂ تمریض ’’قِیْلَ، ذُکِرَ‘‘ کے ساتھ بیان کرے تو قابلِ قبول نہیں ہوگی؛ بلکہ اُن کی تحقیق ضروری ہے، اور جو محدثین صحیح اور غیر صحیح ہر طرح کی روایت بیان کرتے ہیں اُن کی تعلیقات مقبول نہیں ہے۔ (منھج النقد: ۳۷۵)